اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں واقع افغانی برگر کی ایک دکان کے باہر کرسیوں پر افغانستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے سے متعلق تند و تیز گفتگو میں مصروف تھے اور اس بحث کا زیادہ فوکس اس پوائنٹ پر تھا کہ کیا واقعی افغانستان میں اس معاہدے سے امن قائم ہو جائے گا اور افغانوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوگا۔
یہ دکان افغانستان کے شہر مزار شریف سے تعلق رکھنے والے عبدالشکور کی ہے جو گذشتہ 12 سال سے اسلام آباد کے اسی سیکٹر میں افغانی برگر کی دکان چلا رہے ہیں۔ عبدالشکور عید کے موقع پر سال میں صرف ایک بار مزار شریف جا کر اپنے بیوی، بچوں اور دیگر گھر والوں سے ملتے ہیں۔
عبدالشکور کا خاندان 1994 میں مجاہدین گروپوں کے درمیان لڑائی کے بعد پشاور منتقل ہو گئے مگر شکور کی عمر اس وقت بہت کم تھی اور کچھ سال بعد ان کا خاندان واپس مزار شریف چلا گیا جبکہ عبدالشکور نے 2007 میں اسلام آباد کے اسی سیکٹر میں اپنے لئے افغانی برگر کی ایک دکان کھول لی۔
عبدالشکور کہتے ہے کہ مزار شریف واپس جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارے گاؤں کے مکانات کچھ حد تک تباہ ہو چکے تھے جبکہ افغانستان اور وہاں کے عوام کے معاشی حالات بھی بدتر تھے جبکہ زندگی پر ایک خوف کا سایہ تھا جس کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ واپس پاکستان جا کر کوئی کام شروع کروں تاکہ گھر والوں کو کچھ پیسے دوں اور نہ صرف اپنا گھر دوبارہ تعمیر کروں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کو دوبارہ شروع کر سکوں۔
عبدالشکور کہتے ہیں کہ انہوں نے جب 12 سال پہلے یہ دکان شروع کی اس وقت افغانی برگر کا ٹرینڈ اسلام آباد میں اتنا نہیں تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے گاہک بنتے گئے اور اب کاروبار صحیح چل رہا ہے۔
عبدالشکور سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کی کہانی کچھ اور نہیں بس ڈالروں کی ریل پیل ہے اور نہ تو امریکہ نہ ہی افغانستان نہ دوسرے ممالک کو اس بات میں کوئی دلچسپی ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور افغانستان کے لوگ امن سے جی سکیں۔
جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد واپس اپنے ملک جاؤ گے تو عبدالشکور بہت حیران ہوئے اور کہا کہ ہم پاگل ہیں جو پردیس کے عذاب میں زندگی گزاریں۔ جب اسی مہینے امن معاہدے پر دستخط ہوں گے تو کچھ مہینے انتظار کریں گے کہ واقعی افغانستان میں بم دھماکے ختم ہوتے ہیں یا نہیں اور اگر لوگ امن سے زندگی گزاریں گے تو ہم اسی دن واپس اپنے ملک چلے جائیں گے۔
عبدالشکور کہتے ہیں کہ یہاں پر بے پناہ مسائل کا سامنا ہے مگر پھر بھی ہم پاکستان کو دوسرا گھر سمجھتے ہیں کیونکہ ہم نے یہاں پر اپنا بچپن اور جوانی گزاری ہے اور اسی مٹی پر زندگی کے بہترین دن دیکھے ہیں۔ پاکستان افغانستان کے بعد ہمارا دوسرا گھر ہے اور ہم سب افغانستان کے لوگ چاہتے ہیں کہ یہاں پر بھی امن اور خوشحالی ہو۔ عبدالشکور کہتے ہیں، میرا ایک ہی نظریہ ہے اور وہ یہ کہ ملکوں کے درمیان بارڈرز پر بے جا سختی نہ ہو اور شہری آزاد طریقے سے آسانی سے دوسرے ملک جا سکیں۔
عبدالشکور نے کہا کہ پاکستان کے لوگ آسانی سے افغانستان جا سکیں، افغانستان کے لوگ آسانی سے پاکستان آ سکیں کیونکہ ان سے نفرتیں کم ہوں گی اور محبتیں بڑھیں گی۔ وہ کہتے ہیں میں کئی بار ہندوستان گیا مگر میں نے افغانستان، پاکستان اور ہندوستان میں ایک چیز مشترک پائی کہ سب لوگ ایک جیسے ہیں اور ان کے مسائل بھی ایک جیسے ہیں۔ اگرمسئلہ ہے تو حکمرانوں کے درمیان ہے، جو نفرتوں کو ہوا دیتے ہیں۔
ایک سوال پر کہ واپس جا کر کیا کرو گے، عبدالشکور نے جواب دیا کہ اپنے گاؤں جا کر کوئی کاروبار شروع کروں گا اور اپنے بچوں کے ساتھ باقی زندگی اپنی سرزمین پر گزاروں گا کیونکہ ہم نے اپنی سرزمین پر کبھی سکون کے دن نہیں دیکھے۔