پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ازخود نوٹس کیس میں پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی ف نے جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کی بینچ میں موجودگی پر اعتراض اٹھادیا۔ حکومتی اتحادی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کی۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
دوران سماعت سابق اسپیکرز کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ ن کے وکیل منصور اعوان اور گورنر پنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔وائس چیئرمین پاکستان بار، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار شعیب شاہین، اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن عدالت میں پیش ہوئے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری، فرحت اللہ بابر اور پی ٹی آئی رہنما عامر محمود کیانی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کا مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو لارجر بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کی۔ وکیل نے کہا کہ 2 ججز کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض ہے۔ اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سےالگ کردیں۔انہیں بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ اعتراض کرنے کا فیصلہ ہمارے قائدین نے کیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے غلام محمود ڈوگر کیس میں دونوں ججز کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا جب کہ جسٹس جمال کا گزشتہ روز کا نوٹ بھی پڑھا۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو بینچ سے الگ کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کا متفقہ بیان پڑھ رہا ہوں۔تینوں سیاسی جماعتیں احترام سے کہتی ہیں کہ دو رکنی بینچ کا ازخود نوٹس کا حکم سامنے ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا عدالت میں پڑھا گیا بیان بھی ہے۔انصاف کی فراہمی اور فئیر ٹرائل کے تناظر میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ سے الگ ہوجائیں۔
ان کے موقف کے مطابق دونوں ججز ن لیگ اور جے یوآئی کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ 184/3 سے متعلق سمجھتا ہوں، کیوں نہ یہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے، فاروق نائیک نے کہا کہ اس وقت میں اس کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا، میرا بھی یہی خیال ہے کہ معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔
دوران سماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے وکیل اظہر صدیق ویڈیو لنک پر پیش ہوئے۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی جارہی ہے اس پر نوٹس لیا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے۔ اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا۔
شیخ رشید کے وکیل نے مریم نواز کے جلسے کا نام لیے بغیر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جلسے میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے خلاف تضحیک آمیز گفتگو کی گئی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔
اس موقع پر وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے پی ڈی ایم کی جانب سے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض کو سنے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بات کو آرڈر کا حصہ بناتے ہیں اس پر پیر کو سماعت کریں گے۔ جس کے بعد عدالت نے آج کی سماعت کا آرڈر لکھوانا شروع کردیا۔
انتخابات از خود نوٹس کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔