Get Alerts

شہباز شریف کو مجرم ثابت کرنا شہزاد اکبر کے بس میں ہی نہیں تھا، جھوٹے دعوے لے ڈوبے

شہباز شریف کو مجرم ثابت کرنا شہزاد اکبر کے بس میں ہی نہیں تھا، جھوٹے دعوے لے ڈوبے
سینئر صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ شہزاد اکبر کے استعفے کی بڑی وجہ شہباز شریف ہیں۔ وہ اپوزیشن لیڈر کو مجرم ثابت کرنے کے دعوے کرتے رہے جو انھیں لے ڈوبے۔ وزیراعظم ناراض تھے، استعفیٰ لے لیا گیا۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بات کرتے ہوئے اعزاز سید کا کہنا تھا کہ عمران خان نے لوگوں کو خواب دکھا کر نعرہ لگایا تھا کہ اس ملک کی اصل برائی کرپشن ہے اور اسی وجہ سے ملک آگے نہیں چل رہا۔ ہم باہر سے اربوں روپے لائیں گے اور بھاگے ہوئے لوگوں سے بھی ملکی دولت نکلوائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی یہی باتیں شہزاد اکبر اپنی پریس کانفرنسز میں دہراتے تھے لیکن آج تک کچھ نہیں ہوا۔ شہزاد اکبر کی احتساب میں نہیں بلکہ زرداری اور شریف خاندان میں دلچسپی تھی۔ اگر وہ ملک کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے ملک ریاض جیسے بندے کو کیوں نہیں پکڑا؟
شہباز شریف کی گرفتاری بارے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ڈی جی نیب لاہور جمیل احمد نے بھی عمران خان کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ انھیں مجرم ثابت کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس بات نے شہزاد اکبر کے تمام دعوئوں کو غلط ثابت کیا، اس لئے آج نہیں تو کل انہوں نے جانا ہی تھا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ''اگر مجھے نکالا'' والا وزیراعظم عمران خان کا پیغام اسٹیبلشمنٹ کیلئے ہی تھا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کہیں نہیں جا رہی۔ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عمران خان نے گذشتہ روز خوف، غصے اور بے بسی میں اپنی تقریر کی۔ ان تینوں صورتوں میں انسان کے الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔ ایسی حالتوں میں لوگ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جس کا نتیجہ انھیں بھگتنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم نے اعتراف شکست کیا کہ میرے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود کوئی چیز چل نہیں رہی۔
اسد قیصر تحریک عدم اعتماد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے اعزاز سید کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں نواز شریف اور آصف زرداری کے رابطے ہوئے تھے۔ نواز شریف کا موقف تھا کہ ہم اسمبلیاں توڑنے کے حق میں نہیں۔ تاہم اب ان کی جانب سے یہ لچک سامنے آئی ہے کہ چلیں یہ کڑوی گولی کھانے کیلئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ فوری انتخاب کرائے جائیں، لیکن یہ معاملہ بھی لٹک گیا ہے۔ اب پلان بی کے تحت کہا جا رہا ہے کہ اسد قیصر اور صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم لا کر دونوں ایوانوں کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان کو سپورٹ ابھی تک جاری ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ میں عمران خان کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ ابھی تک تقسیم ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ان کے حق میں ہیں بلکہ وہ ان کے متبادل سے خوش نہیں ہیں۔ وزیراعظم گذشتہ ڈیڑھ دو سالوں سے یہ بات باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میں تو چاہتا تھا کہ احتساب ہو لیکن مجھے ایسا کرنے کیلئے ٹیم اچھی نہیں دی گئی۔ میں تو اس ملک میں تبدیلی لانا چاہتا تھا لیکن میرے ہاتھ باندھے گئے۔ یہ باتیں کرکے وہ ملک کے اہم ادارے کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔