پاکستان کی سیاست جس طرف بڑھ رہی ہے اس سے کوئی اچھا نتیجہ نکلنے کی امید نہیں ہے۔ عوام اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ضرور ہیں لیکن عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے۔ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ناراض ہے کہ مجھے جیل میں کیوں رکھا ہوا ہے۔ وہ اس وقت بھی فوج کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہنا ہے معروف تاریخ دان ڈاکٹر عائشہ جلال کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اداروں کے مابین جاری چپقلش دراصل اشرافیہ کی لڑائی ہے جس میں عوام سمجھتے ہیں کہ فوج کو پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نظرانداز کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ اس وقت عدلیہ بھی منقسم ہے مگر پاکستان میں اداروں کی سطح پہ کوئی تبدیلی آتی نظر نہیں آ رہی۔ ہم سٹرکچرل تبدیلی کی طرف نہیں بڑھ رہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ڈاکٹر عائشہ جلال کے مطابق اپنے دور حکومت میں عمران خان بہت غیر مقبول تھا، اس کی گورننس زیرو تھی۔ سیاست دانوں کو سمجھنا ہو گا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا رول تب تک نہیں ختم کر سکتے جب تک اچھی کارکردگی نہیں دکھاتے۔ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آتا ہے تو بہت جلد دوبارہ غیر مقبول ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی کا تمام تر انحصار عدالتوں پر ہے، وہ سیاسی بات چیت کی طرف نہیں جا رہے۔ سیاسی گٹھ جوڑ کے بغیر عمران خان جیل سے باہر نہیں آ سکتے۔
میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔