جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم سرینہ عیسیٰ نے پولیس سٹیشن سیکرٹریٹ میں یہ درخواست جمع کروائی ہے کہ ان کے شوہر کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ ایک مذہبی عالم نے ان کو قتل کرنے کی دھمکیوں کے ساتھ یوٹیوب پر ویڈیو اپلوڈ کی ہے۔
ویڈیو میں موجود شخص کا نام آغا افتخار الدین ہے اور بیگم قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق یہ شخص کچھ طاقتور لوگوں کے ایما پر ممکن ہے کہ ایسا کر رہا ہو۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک سفید پگڑی اور جبہ پہنے ایک شخص آغا افتخارالدین کہہ رہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اسرائیلی اور بھارتی ایجنٹ ہیں۔ اس شخص نے افواجِ پاکستان کے ذمہ دار افراد کو یہ تنبیہ کی کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو پھر اس عدلیہ کا بندوبست کرنا ہوگا۔
اس شخص نے ججوں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ جج نواز شریف اور زرداری کے ’پالتو کتے‘ ہیں۔ اور کہا کہ عدالت میں یوں ہونا چاہیے کہ مجرم کو پکڑا جائے اور اس کو سزا ہوتی ہوئی نظر آئے۔
اس شخص نے اپنی اس شر انگیزی کو احادیث کے ذریعے مذہبی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کی جو کہ اس قسم کے غیر معروف مولویوں کا وطیرہ ہوا کرتا ہے۔
اس نے کہا کہ امیر المؤمنین کے دور میں ایک شخص کرپشن میں پکڑا گیا اور اسے تاحیات جیل میں ڈال دیا گیا تاوقتیکہ یہ شخص زسی زندان میں مر جائے۔
اس کے بعد اس ملّا نے ریاستِ مدینہ سے چھلانگ ماری کمیونسٹ چین کی طرف اور کہا کہ ہمیں چین کا فارمولہ جو کہ اس شخص کے نزدیک امیر المؤمنین (ویڈیو میں امیر المؤمنین کا نام نہیں لیا گیا لیکن جبے اور دستار سے ظاہر ہے کہ یہ شخص غالباً حضرت علیؑ کی بات کر رہا ہے) سے بھی بہتر طریقہ رکھتے ہیں۔
اس نے کہا جو بھی شخص مالی کرپشن میں پکڑا جائے، خواہ وہ نواز شریف ہو، زرداری ہو یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہو، اسے سیدھا فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے۔
مولوی نے اس کے بعد مزید کہانیاں گھڑتے ہوئے کہا کہ چین میں قانون یہ ہے کہ جو شخص کرپشن میں پکڑا جائے اسے سیدھا گولی ماری جاتی ہے اور پھر ورثا کو لاش نہیں دی جاتی، ان سے کہا جاتا ہے کہ پہلے اس گولی کے پیسے لاؤ۔
سرینہ عیسیٰ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو قتل کی دھمکیاں دینا بدترین قسم کی دہشتگردی ہے۔ بہت سے طاقتور لوگ میرے شوہر سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور یہ آپ کا فرض ہے کہ ان افراد کو ڈھونڈ کر انہیں گرفتار کریں۔
بیگم قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست میں گذارش کی ہے کہ اس شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے ان کو اس کی کاپی فراہم کی جائے۔