کراچی میں پارکنگ مافیا کا دھندہ بغیر روک ٹوک کے جاری ہے

کراچی میں پارکنگ مافیا کا دھندہ بغیر روک ٹوک کے جاری ہے
شہر کراچی میں جنگل کا قانون رائج ہے۔ مافیاز کو کھلی چوٹ مل چکی ہے جس کی وجہ سے عوام کا جینا محال ہو گیا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بنیادی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر کراچی میں مافیاز نے عوام کو کہیں کا نہیں چھوڑا جس کی وجہ سے عوام پریشان ہو کر رہ گئے ہیں۔

شہر کراچی میں دیگر مافیاز کی طرح پارکنگ مافیا نے بھی اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں۔ شہر کراچی میں جہاں پر ان کا دل کرتا ہے غیر قانونی پارکنگ بنا کر پیسے کما رہے ہیں۔ ہر سروس روڈ، اسپتال، پارک، فوڈ سٹریٹ، بازار، مارکیٹ سمیت دیگر جگہوں پر اپنے کارندے کھڑے کر دیے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر پارکنگ فیس جو کہ غیر قانونی ہے وصول کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ کے حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ متعلقہ ادارے سپریم کورٹ اور کمشنر کراچی کی جانب سے مقرر کردہ فیس پر عمل درآمد کروانے میں مکمل ناکام اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

شہر کراچی کی کوئی بھی مشہور جگہ دیکھی جائے تو وہیں ساتھ میں غیر قانونی پارکنگ بھی نظر آ جائے گی۔ اسی طرح شہر کراچی کی کوئی جگہ مافیا سے آزاد نہیں جس کہ وجہ سے راہ گیر سمیت دیگر گاڑیوں اور ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس یا کسی مریض کو اسپتال لے جانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ دوسری جانب دیکھنے میں یہ بھی آیا یے کہ انہی قائم غیر قانونی پارکنگ سے موٹر سائیکل سمیت دیگر اشیا بھی پارکنگ کے کارندے چوری کرنے میں ملوث پائے جاتے رہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر لوگ پارکنگ کی فیس بھی دے دیتے ہیں مگر موٹر سائیکل پارکنگ والے اسے اپنے کارندے کے زریعے سے چوری کر لیتے ہیں کیونکہ پارکنگ مافیا کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔

دوسری جانب اگر کوئی پارکنگ کی فیس نہ دے تو کارندے ٹریفک پولیس کے ذریعے گاڑی لفٹ کروا لیتے ہیں جس کو بعد میں چالان جمع کرنے کے بعد وہاں سے واپس لاتے ہیں اور اگر ضلع جنوبی کی بات کی جائے تو بہت سی اہم عمارتیں ہونے کے باوجود غیر قانونی پارکنگ کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ زیادہ دور جانے کی بات نہیں ریڈ زون میں وزیر اعلیٰ سندھ کے آفس کی بات کی جائے تو اس کے پاس ہی پی آئی ڈی سی ٹریفک کی حدود میں پارکنگ مافیا اپنے دھندے جاری رکھے ہوئے ہے۔ من مانی فیس وصول کر رہے ہیں اور حکومتی رٹ کو چیلنج کر رکھا ہے جبکہ کمشنر کراچی کے مطابق موٹر سائیکل کی فیس 10 روپے اور گاڑی کی فیس 20 روپے مقرر کی گئی ہے لیکن پارکنگ مافیا کے کارندے منہ مانگے پیسے وصول کر رہے ہیں۔ موٹر سائیکل سے 30 روپے جبکہ گاڑی سے 50 روپے بھتہ لے رہے ہیں۔

اسی طرح ضلع جنوبی میں مشہور فوڈ سٹریٹ بوٹ بیسن پر بھی پارکنگ مافیاز ہر دوسرے آنے والے شخص سے بلا کسی خوف کے پیسے وصول کر رہے ہیں۔ اسی طرح تھوڑا آگے چلے جائیں تو بلاول ہاؤس سے سی ویو جانے والی روڈ پر شاپنگ مال کی پارکنگ میں ٹریفک پولیس اہلکار ٹریفک کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ پارکنگ میں گاڑیاں بھی پارک کرواتے نظر آتے ہیں اور پوچھنے پر جواب دینے سے کتراتے ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے وہاں پر اگر کوئی شخص فیملی کے ساتھ جاتا ہے تو ان کو کمشنر کراچی کی مقرر کردہ فیس بتاتا ہے تو ان کے کارندے اس شخص کے ساتھ بغیر کسی خوف کے بدتمیزی اور تشدد کرنے پر آجاتے ہیں اور گالم گلوچ کا کھلا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

اگر کوئی میڈیا کا نمائندہ بار بار اس کی نشاندہی کرتا ہے تو متعلقہ ادارے دکھاوے کی کارروائی کرتے ہیں اور پھر کچھ دنوں بعد پارکنگ دوبارہ شروع ہو جاتی ہیں جبکہ بار بار نشاندہی کرنے کے بعد نمائندوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہر کراچی اور بالخصوص ضلع جنوبی میں قائم غیر قانونی پارکنگ پر میئر کراچی یا سندھ گورنمنٹ کیا ایکشن لیتی ہے یا مافیا کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے؟

چونکہ صوبے میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے اور اب میئر کراچی سمیت ایڈمنسٹریٹر ساؤتھ بھی پیپلز پارٹی کا ہی ہے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مافیا اپنا کام جاری رکھتا ہے یا موجودہ نظام اس مافیا کا کاروبار ٹھپ کر کے انہیں گھر بھجواتا ہے۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ موجودہ حکومت عوام کو کتنا ریلیف دینے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح عوام کو کسی نہ کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر چلتی بنے گی۔

محمد اویس عارف صحافت کے طالب علم ہیں اور انہوں نے بحریہ یونیورسٹی کراچی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے۔