کورونا وائرس نے ساری دنیا میں کہرام بپا کر رکھا ہے اور ہر حکومت اپنے شہریوں کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے لئے تمام ممکن انتظامات کر رہی ہے۔ دوسری طرف ہمارے پاس بہت وقت تھا کہ ہم بر وقت حفاظتی اقدامات کر کے اس خطرے کو محدود کر سکتے تھے لیکن ہماری حکومت اپنے ترجمانوں کے ذریعہ صرف بیان بازی سے ہی کام چلاتی رہی۔
حکومتی وزرا حزب اختلاف کو مخاطب کر کے کہتے رہے کہ اس مسئلہ پر سیاست نہ کریں لیکن خود صرف سییاست ہی کرتے رہے۔ اس آفت پر حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ایک کل جماعتی کانفرنس طلب کرتی اور اس قدرتی آفت سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل طے کرتی لیکن اس کے برخلاف حکومتی وزرا کو حزب اختلاف کو نشانہ بنانے پر مامور کر دیا گیا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے بردباری کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی منفی ردعمل نہیں دیا بلکہ حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ حکومتی شخصیات پہلے نواز شریف اور شہباز شریف کے بیرون ملک قیام پر طبع آزمائی کرتے رہے اور جب قائد حزب اختلاف وطن واپس تشریف لے آئے تو ان کے آنے پر طنز و مزاح کا سیشن شروع ہو گیا۔
یہ بات تو اظہر من الشمس تھی کہ قائد حزب اختلاف 'کسی' کے دعوت پر آئے ہیں کیونکہ وہ کرائسسز میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ جو کل جماعتی کانفرنس حکومت کو بلانا چاہیے تھی وہ حزب اختلاف کی کوششوں سے آج منعقد ہوئی، جس میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی شریک ہیں اور ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے میں مصروف ہیں۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اپنی جماعت کی جانب سے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر طبی عملے کیلئے دس ہزر سیفٹی کٹس دینے کا اعلان کیا ہے اور حکومت کو مثبت تجاویز دیں لیکن افسوس صد افسوس کہ حکومتی ترجمان فردوس اعوان نے پھر توپوں کا رخ ان کی طرف کر کے تعاون کی پیشکش کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ گو کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے اس قدرتی آفت سے متعلق بیانات سامنے آ رہے ہیں لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حکومت کی پے در پے حماقتوں سے تنگ آئے 'مہربانوں' نے تمام انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ شہباز شریف کو رپورٹ کریں اور انہی کے احکامات پر عمل کریں۔
پاکستان کی عوام کو ۲۰۱۸ کے انتخابات کے بعد سے جس عذاب میں مبتلا کر دیا گیا تھا لگتا ہے قدرت کو رحم آ گیا ہے اور سحر ہونے کو ہے۔ یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا۔