پاکستان کے اندر کرونا وائرس سے جنگ کے دوران حکمت عملی کے حوالے سے حکومتوں کی کارکردگی پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ لیکن آئے روز پنجاب میں نااہلی اور سنگین غفلت کی کوئی نہ کوئی داستان سامنے آتی رہتی ہے۔ پنجاب حکومت پر تو کرونا کے کیسز کو جان بوجھ کر چھپانے کا الزام بھی لگتا رہا۔ تاہم اب پنجاب حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے ڈیٹا میں نقائص کی وجہ سے کرونا کے مشتبہ مریضوں کے رپورٹ نہ ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت کے پاس ایسے مریضوں کا کوئی مستند ڈیٹا نہیں ہے جو کہ صوبہ میں کرونا کے ایسے مشتبہ مریضوں کی تعداد کے بارے میں بتاتا ہو جو کرونا سے ملتی جلتی علامات کے ساتھ ہسپتال آئے اور جلد ہی ان کا انتقال ہوگیا یا پھر انہیں واپس بھیج دیا گیا۔
میو اسپتال میں موجود ڈاکٹر ذرائع نے بتایا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کرونا کے 8 سے 10 ایسے مشتبہ مریض وصول کر رہے ہیں جو کہ سانس پھولنے کی شکایت سے آتے ہیں اور کچھ دیر میں ان میں سے بیشتر کا انتقال ہو جاتا ہے جب کہ ان کا کرونا ٹیسٹ کرائے بغیر ان کی موت کی وجہ انکی پہلے سے جاری بیماریاں ظاہر کر دی جاتی ہیں۔ یہی حال پنجاب کے دیگر بڑے چھوٹے ہسپتالوں کا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے پنجاب میں اس وقت کرونا سے کون کون مر رہا ہے اس کا جامع اور مستند ڈیٹا حکومت کے پاس موجود نہیں ہے۔ کرونا وائرس سے متعلق حکومتی ڈیٹا مشکوک ہے۔ ذرائع نے نیا دور سے گفتگو میں کہا کہ جب تک کوئی بھی انتظامیہ مشکوک مریضوں کے ٹیسٹ اور ان کا ڈیٹا مرتب نہیں کرے گی صوبے میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی اصل تعداد سامنے نہیں آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسے مشکوک کیسز جن کی ہسپتال پہنچنے سے پہلے یا کچھ دیر بعد انتقال ہوجاتا ہے ان کے کرونا ٹیسٹ کرا کر ڈیٹا مرتب کیا جائے تو آپ دیکھیں گے صوبے میں کرونا وائرس سے اموات کی شرح اٹلی اور امریکا جیسی ہی ہوگی۔
اس حوالے سے جب گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب سے وابستہ ایک سینئر ڈاکٹر سے بات کی گئی تو انہوں نے حکومت کے اعتاب کےخدشے کے تحت نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مشکوک افراد کے ٹیسٹ نہ ہونے اور ڈیٹا کی عدم دستیابی نے کرونا کے خلاف جنگ کے اس تمام عمل کو مشکوک بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں میڈیا کا سارا فوکس لاہور کے اسپتالوں پر ہے۔ جب کہ ملتان، سرگودھا، راولپنڈی، ڈی جی خان ڈویژنز میں تو صورتحال مزید خوفناک ہے۔ جہاں انہوں نے بتایا کہ روز ڈاکٹرز کے درجنوں میسجز ملتے ہیں جس میں زمینی حقائق بتا کر ڈاکٹر تنظیموں سے مدد طلب کی جاتی ہے لیکن کچھ نہیں ہو رہا ہم جب بات کرتے ہیں تو حکومت ہم پر ہی سیاست کا الزام لگا کر ہمارے مطالبات کو متنازع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس معاملے پر وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد سے رابطہ کیا گیا اور انہیں ٹیکسٹ میسج کے ذریعے رابطے کا مقصد بھی بتایا گیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ چین جہاں کرونا وائرس کی یہ وبا پھوٹی تھی وہاں بھی چینی حکام نے وبا پر قابو پانے کے کچھ عرصہ بعد ایسی اموات کا انکشاف کیا تھا جو حکومتی ڈیٹا میں ظاہر نہیں کی گئی تھیں جس کے بعد وہان میں ہونے والی ان اموات کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔