Extremist mob demolishing the Ahmadiyya worship place in Sialkot, Pakistan. pic.twitter.com/rdQfINextT
— NayaDaur (@nayadaurpk) May 24, 2018
بیت المبارک اور اس سے ملحقہ حکیم حسام الدین کا گھر وہ مقامات ہیں جہاں مرزا غلام احمد قادیانی دعوے سے پہلے 1860 کی دہائی میں رہائیش رکھتے تھے اور دعوے کے بعد بھی سیالکوٹ کے دورے کے دوران انہوں نے اس گھر میں رہائیش اختیار کی تھی اور بیت المبارک میں نمازیں پڑھیں تھیں۔ یاد رہے کہ مرزا صاحب 1864 سے 1868 تک سیالکوٹ میں بسلسلہ ملازمت قیام فرما رہے تھے۔ تب آپ ایک سرکاری محکمے میں کلرک تھے۔ اس لحاظ سے یہ مسجد اور اس سے ملحقہ مکان احمدیوں کے لئے مقدس مقام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے گنبد اور مینار ضیاالحق کے اینٹی قادیانی آرڈیننس سے بہت پہلے کے تعمیر شدہ ہیں۔
1
Should we consider this instigating speech as a confessional statement of Hafiz Hamid Raza (PTI candidate for #AJK Polls 2016, LA-32 Jammu ) ?#Sialkot #AhmadiApartheid pic.twitter.com/vtVKmudhMz
— افشاں مصعب (@AfshanMasab) May 24, 2018
پچھلے دو برس میں اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری حکومت نے ایک دوسرے کے خلاف جو قادیانی سازش کا کارڈ استعمال کیا ہے اور ایک دوسرے کو قادیانی یا قادیانی نواز قرار دینے کا جو ڈرامہ رچایا ہے اس کے اثرات عام احمدی تک آنا شروع ہوچکے ہیں۔ الیکشن اصلاحات میں حلف کی معمولی تبدیلی سے خوب ہنگامہ کیا گیا اور مسلم لیگ کی حکومت کو زچ کرنے کے لئے اس سب کو کوئی بہت گہری قادیانی سازش قرار دیا گیا نیز نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو ختم نبوت کا غدار کہا گیا جس کا نتیجہ لیگی لیڈران پر لبیک یارسول اللہ پارٹی کے کارکنوں کی جوتا بازی اور اب احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی صورت نکلا ہے۔
مزید پڑھیے: انتہا پسندوں کوخوش کرنے کی بھاری قیمت
اس سب صورت حال پر جلتی پر تیل کا کام لبیک یارسول اللہ پارٹی کا قیام ہے جسے اسٹیبلشمنٹ نے ن لیگ کے بریلوی ووٹ بینک کو توڑنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ یہ پارٹی گلی گلی مذہبی فسادیوں کی صورت استعمال کر چکی ہے اور کہیں مسیحیوں پر توہین رسالت کے پرچے کروانے کے لئے دنگے کرتی ہے تو کہیں سیاسی لیڈران پر جوتے پھینکنے اور قاتلانہ حملے کرنے میں اس کے کارکنان ملوث ہیں۔ ایسے میں اس ٹولے نے ختم نبوت کے معاملے پر عوام کے بھڑکے ہوئے مذہبی جزبات کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔
اس سب کا مستقبل میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ اب گلی گلی سیاسی فائدے کے لئے مذہبی جذبات کو انگیخت کیا جائے گا۔ ہر پارٹی اور طاقت کے مراکز کی جانب سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ کون زیادہ بڑا ’مرزائی‘ کا دشمن ہے۔ اگلی آنے والی حکومت پوری کوشش کرے گی کہ اس کے عشق رسول کے دعوے اور ختم نبوت سے وفاداری پر لبیک یارسول اللہ کا فسادی ٹولہ سوال نہ اٹھا سکے۔ معاملات دوبارہ سے احمدیوں پر مزید پابندیاں لگانے اور مذہبی شناخت کو پبلک کرنے کے مطالبات تک پہنچ چکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایذا رسانی کے اس موسم میں اقلیتوں کو مذہبی شناخت کے بیج لگانے کا نتیجہ ہمیشہ آشوٹز کی صورت میں نکلتا ہے۔