سیالکوٹ مین احمدی عبادتگاہ پر حملہ: پاکستان احمدیوں کا بنتا آشوٹز

سیالکوٹ مین احمدی عبادتگاہ پر حملہ: پاکستان احمدیوں کا بنتا آشوٹز
سیالکوٹ میں چھتی گلی میں واقع احمدی عبادت گاہ جسے مسجد کہنے کی آئین پاکستان ممانعت کرتا ہے اور اس سے ملحقہ حکیم حسام الدین کا مکان لبیک یارسول اللہ اور دیگر ختم نبوت سے متعلقہ مذہبی تنظیموں کے کارکنان اور مقامی رہائشیوں نے مل کر مسمار کر دیا ہے۔ اس مکان کی تزئین و آرائش کی جارہی تھی کیوں کہ یہ مکان اور اس سے متصل بیت المبارک احمدیوں کے لئے تاریخی مقام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس پر مقامی مذہبی تنظیموں نے پہلے تو سٹے آرڈر لیا اور احمدی املاک کو سربمہر کروایا مگر اس پر بھی تسلی نہ ملی تو مقامی انتظامیہ سے مل کر بیت المبارک اور حکیم حسام الدین کے مکان کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس سے بیت المبارک کو کافی نقصان پہنچا ہے اور اس کے مینار اور گنبد توڑ دئے گئے ہیں۔



بیت المبارک اور اس سے ملحقہ حکیم حسام الدین کا گھر وہ مقامات ہیں جہاں مرزا غلام احمد قادیانی دعوے سے پہلے 1860 کی دہائی میں رہائیش رکھتے تھے اور دعوے کے بعد بھی سیالکوٹ کے دورے کے دوران انہوں نے اس گھر میں رہائیش اختیار کی تھی اور بیت المبارک میں نمازیں پڑھیں تھیں۔ یاد رہے کہ مرزا صاحب 1864 سے 1868 تک سیالکوٹ میں بسلسلہ ملازمت قیام فرما رہے تھے۔ تب آپ ایک سرکاری محکمے میں کلرک تھے۔ اس لحاظ سے یہ مسجد اور اس سے ملحقہ مکان احمدیوں کے لئے مقدس مقام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے گنبد اور مینار ضیاالحق کے اینٹی قادیانی آرڈیننس سے بہت پہلے کے تعمیر شدہ ہیں۔



پچھلے دو برس میں اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری حکومت نے ایک دوسرے کے خلاف جو قادیانی سازش کا کارڈ استعمال کیا ہے اور ایک دوسرے کو قادیانی یا قادیانی نواز قرار دینے کا جو ڈرامہ رچایا ہے اس کے اثرات عام احمدی تک آنا شروع ہوچکے ہیں۔ الیکشن اصلاحات میں حلف کی معمولی تبدیلی سے خوب ہنگامہ کیا گیا اور مسلم لیگ کی حکومت کو زچ کرنے کے لئے اس سب کو کوئی بہت گہری قادیانی سازش قرار دیا گیا نیز نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو ختم نبوت کا غدار کہا گیا جس کا نتیجہ لیگی لیڈران پر لبیک یارسول اللہ پارٹی کے کارکنوں کی جوتا بازی اور اب احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی صورت نکلا ہے۔

مزید پڑھیے: انتہا پسندوں کوخوش کرنے کی بھاری قیمت


اس سب صورت حال پر جلتی پر تیل کا کام لبیک یارسول اللہ پارٹی کا قیام ہے جسے اسٹیبلشمنٹ نے ن لیگ کے بریلوی ووٹ بینک کو توڑنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ یہ پارٹی گلی گلی مذہبی فسادیوں کی صورت استعمال کر چکی ہے اور کہیں مسیحیوں پر توہین رسالت کے پرچے کروانے کے لئے دنگے کرتی ہے تو کہیں سیاسی لیڈران پر جوتے پھینکنے اور قاتلانہ حملے کرنے میں اس کے کارکنان ملوث ہیں۔ ایسے میں اس ٹولے نے ختم نبوت کے معاملے پر عوام کے بھڑکے ہوئے مذہبی جزبات کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔



اس سب کا مستقبل میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ اب گلی گلی سیاسی فائدے کے لئے مذہبی جذبات کو انگیخت کیا جائے گا۔ ہر پارٹی اور طاقت کے مراکز کی جانب سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ کون زیادہ بڑا ’مرزائی‘ کا دشمن ہے۔ اگلی آنے والی حکومت پوری کوشش کرے گی کہ اس کے عشق رسول کے دعوے اور ختم نبوت سے وفاداری پر لبیک یارسول اللہ کا فسادی ٹولہ سوال نہ اٹھا سکے۔ معاملات دوبارہ سے احمدیوں پر مزید پابندیاں لگانے اور مذہبی شناخت کو پبلک کرنے کے مطالبات تک پہنچ چکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایذا رسانی کے اس موسم میں اقلیتوں کو مذہبی شناخت کے بیج لگانے کا نتیجہ ہمیشہ آشوٹز کی صورت میں نکلتا ہے۔