سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کے نام خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنے شوہر کے خلاف ہونے والے صدراتی ریفرنس اور خود پر لگائے گئے الزامات کی بنا پر ان سے معذرت کا مطالبہ کر دیا ہے۔
مسز سرینا عیسیٰ نے صدر پاکستان کے نام خط لکھتے ہوئے کہا ہے کہ جب میرے شوہر کے خلاف صدراتی ریفرنس زیر التوا تھا تو آپ نے اس سے متعلق اس دوران تین انٹرویو دیے جو کہ صدر ملکت اور ایوان صدر کے عہدے اور تقدس کے خلاف تھا۔ آپ نے کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ ہمیں آپ کی جانب سے، حکومتی عہدیداروں اور میڈیا کی جانب سے نامناسب الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت میرے شوہر نے مجھے اس کیس سے متعلق بات کرنے سے یہ کہتے ہوئے منع کیا کہ کیس ابھی زیر التوا ہے، لیکن آپ میں سے کسی نے قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ ان دو مشکل ترین سالوں میں آپ نے مجھے اور میرے والد وہ اذیت دی جب کہ آپ سب نے میرے دکھی والد کو قبر تک پہنچا دیا۔
سرینا عیسیٰ نے صدر مملکت کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ آپ کا ریفرنس 19 جون 2020 کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا، لیکن آپ میں سے کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ ان جھوٹے اور نامناسب الزامات پر معافی مانگیں۔ بجائے اس کے، ہمارے اوپر مرزا افتخار الدین کی صورت ایک نئی پراکسی کھڑی کر دی گئی جو میرے شوہر کو قتل کرنے کی9 دھمکیاں دے رہا تھا جب کہ آپ اور آپ کی حکومت نے اسے دہشتگردی کرنے کی کھلی چھوٹ دیے رکھی۔
سرینا عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خط میں لکھا کہ میری طرف سے دی گئی درخواست میں آپ بھی ایک فریق تھے۔ لیکن اس کے بعد پھر سوشل میڈیا پر ایک شیطانی مہم چلا دی گئی۔
میرے شوہر اس سارے کیس کی سماعت براہِ راست چلانا چاہتے تھے تا کہ عوام فیصلہ کرے کہ سچائی کیا ہے لیکن آپ کے حکومتی وکلا نے اس کی مخالفت کی۔ تاہم، سچ کو دبانے کے آپ اور حکومتی ارادوں کو شکست ہوئی اور ہم فتح سے ہمکنار ہوئے۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا اور ججز کے خلاف ہتک آمیز کلمات بھی کہے۔ ججز کے خلاف ویڈیوز بنائی گئیں اور ان کے خلاف پروپیگنڈا چلایا گیا، کچھ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ٹوئٹر سے ایسی باتیں کروائی گئیں جن میں وہ ججز کو سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان اکاؤنٹس کی طرف سے نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے جن میں سپیلنگ سمیت اور بہت سی غلطیاں تھیں۔
سرینا عیسیٰ نے صدر پاکستان کو لکھا کہ حکومت کے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے وزیر قانون فروغ نسیم کے سامنے کورٹ میں جھوٹ بولا اور بعد میں سپریم کورٹ کے سامنے اپنے اسی بیان سے مکر گئے۔ سرینا عیسیٰ نے صدر مملکت کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کی طرح انور منصور بھی میرے کیس میں فریق تھے جن میں اتنی جرات نہ تھی کہ وہ عدالت میں آ کر اپنی جانب سے لگائے گئے الزامات کا دفاع کر پاتے لیکن ان کا ایک ایسے شخص کے ساتھ ایسا انٹرویو پلان کیا گیا جس نے خود ایک درخواست دائر کر رکھی تھی مگر وہ بھی سامنے آ کر اپنا مقدمہ عدالت کے سامنے نہ رکھ سکا۔ اب انور منصور خان اور ان کا انٹرویو کرنے والے جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہیں جب کیس ختم ہو چکا اور ہم جیت چکے ہیں۔ اپنے اس عمل سے وہ عدالتی عمل کو ذلیل و رسوا کر رہے ہیں اور آپ بھی ان کی پیروی کر رہے ہیں۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ صدر مملکت آپ نے بھی 19 مئی 2021 کو ایک انٹرویو دیا جس میں آپ نے ایک مرتبہ پھر ریفرنس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور عدالتی احکامات کی حکم عدولی کی۔ کیا آپ کا عہدہ آپ کو اس کی اجازت دیتا ہے؟
آخر میں سرینا عیسیٰ نے لکھا کہ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس نصیحت کا برا نہیں مانیں گے جو میں اپنے شاگردوں کو بھی دیتی ہوں کہ ’جن لوگوں کے ساتھ آپ زیادتی کرتے ہیں، غلط ثابت ہونے پر ان سے معافی مانگ لیں تو اس سے آپ کے قد میں ہی اضافہ ہوتا ہے'۔