فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو بنایا۔ اب یہ بنانے والے کو ہی کھانے پر تلا ہے

فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو بنایا۔ اب یہ بنانے والے کو ہی کھانے پر تلا ہے
پاکستانی فوج – آپ کو اچھی لگے یا بری – ملکی سیاست میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ بطور ایک ادارہ، فوج نے سیاست میں ہمیشہ اپنے اثر و رسوخ کی حد کو پہچانا ہے لیکن ہر تھوڑے عرصے بعد ایک نئی رژیم اس بیوقوفانہ اعتقاد کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ ملک ایک لیبارٹری ہے اور فوجی قیادت کو یہ خداداد حق حاصل ہے کہ وہ اس میں من مرضی کے تجربات کرے۔ ایک چیز جو ان سب سائنسدانوں کو بہت کام کی لگی وہ یہ کہ خود کو بچانے کے لئے ایک سویلین چہرہ سامنے رکھا جائے اور اختیارات اپنے پاس۔ اسے سیاسی انجینیئرنگ کہا جاتا ہے اور یہ ہر بار ناکامی کا منہ دیکھتی ہے۔ تاہم، اپنی سرشت سے مجبور ہمارے فوجی حضرات سکاٹ لینڈ کے اس جنگجو بادشاہ بروس کی پیروی کرنے کو تو تیار ہوں گے جو مکڑی کے بار بار کوشش کرنے سے متاثر ہوا تھا لیکن دنیا کے عظیم ترین سائنسدان آئن سٹائن کے کہے پر عمل نہیں کریں گے جس کے مطابق ہر بار ایک ہی کام کرنا لیکن اس سے مختلف نتائج کی توقع رکھنا بیوقوفی کی بہترین مثال ہے۔

2018 کی گرمیوں میں میرا کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر GHQ کافی آنا جانا رہا۔ لیکن دوسری آفات کی طرح یہ بھی میرے حق میں ہی ثابت ہوئی۔ جب مجھے لگا کہ ماضی کے کچھ مہم جو افسران کی طرح موجودہ کرتا دھرتا بھی ایک نیا چہرہ ڈھونڈ رہے ہیں جو ان کی حکمرانی کے لئے کور فراہم کرے تو میں نے سیاسی انجینیئر ان چیف کے ایک قریبی ساتھی کے ذریعے ان سے درخواست کی کہ یہ نہ کریں کیونکہ اس کا پہلے بھی کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کے جواب نے مجھے ششدر کر دیا: "سر ہم ملک کی صفائی کرنے جا رہے ہیں"۔ میں جلد ان سے مل کر انہیں مبارکباد پیش کروں گا – کیونکہ ملک واقعی صاف ہو گیا ہے، گو یہ ان کی منشا کے مطابق نہیں ہوا۔

عمران خان وہ جھاڑو نہیں بن سکے جس کی ان سے امید تھی۔

ذاتی مشاہدات اور ٹھوس شواہد کی ایک لمبی فہرست ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ شخص طاقت کی ہوس میں مبتلا تھا – اور اس سے بھی اہم یہ کہ یہ تخت تک پہنچنے کے لئے ایک فوجی پیراشوٹ کا متلاشی تھا۔ بہت سے فوجی رہنما اس کے جال میں آنے سے انکار کر چکے تھے لیکن چار سال قبل بالآخر یہ مکار شخص کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد جو بھی ہوا وہ ماضی قریب کا حصہ ہے لیکن ایک حیران کن امر نے اس کے مخالفین کو بھی حیران کر دیا – وہ یہ کہ عمران خان کی فالؤنگ خاصی وسیع ہو چکی ہے؛ یہ تعلیم یافتہ لوگ ہیں لیکن سمجھ بوجھ سے عاری۔ ان میں سے اکثر اس کے اقتدار کے دوران اس کے خلاف بولتے تھے لیکن اقتدار سے نکالے جانے کے بعد پرانے برے دنوں کی یادوں میں غلطاں ہیں۔

وزارتِ عظمیٰ کے لئے عمران خان کو دو وجوہات کی بنا پر امیدوار سمجھا گیا تھا:

اس نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا، لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے پاس ایک بہترین ٹیم تھی جس کا وہ جیت کے بعد شکریہ تک ادا کرنا بھول گیا تھا۔ اور ہاں، اس نے واقعی لاہور میں کینسر اسپتال کے لئے پیسے اکٹھے کیے تھے، جس کے لئے عظیم گلوکار نصرت فتح علی خان نے اس کی دل کھول کر مدد کی جو کہ دنیا کا ایک مانا ہوا گلوکار تھا لیکن اس نے عمران خان کے لئے بغیر معاوضے کے دنیا میں جگہ جگہ فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کی وفات کے بعد لیکن عمران خان نے دعویٰ کیا کہ اس عظیم گلوکار کو اس نے ہی دنیا سے متعارف کروایا تھا۔

لیڈر عموماً کامیابی کی صورت میں کسی بھی چیز کا کریڈٹ لینے لگتے ہیں اور ناکامی میں اس سے دوری بنا لیتے ہیں لیکن عمران خان اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے لیڈرشپ کا یہ سنہرا اصول سامنے لائے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی کہی بات پر یو ٹرن لیتا ہے اور اس بے اصولی کے اصول پر وہ سختی سے کاربند رہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ عوامی فلاح کے ہر کام میں وہ ناکام ہوئے۔ کرپشن سے جنگ ان کا نصب العین تھا۔ کرپشن میں بھی پاکستان ان کے دورِ حکومت میں دنیا کے مزید ملکوں سے پیچھے چلا گیا۔ کسی نے ان سے NRO نہیں مانگا، لیکن وہ مسلسل کہتے رہے کہ وہ NRO نہیں دیں گے۔ کوئی ایک چور بھی پکڑا نہیں، لیکن کہتے رہے کسی کو چھوڑوں گا نہیں۔

یہی وجہ تھی کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکہ کو اڈے دینے پر راضی ہوں گے تو انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ بالکل نہیں – کسی نے ان سے اڈے مانگے جو نہیں تھے۔ مفروضوں پر مبنی سوالات کے جواب دینا کبھی بھی سودمند نہیں ہوتا لیکن کم از کم اصل سوالوں کے جواب دینے سے یہ زیادہ آسان تھا۔ پھر اپنے آپ کو خوش رکھنے کے لئے وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ امریکی مفادات کے لئے اتنا بڑا خطرہ تھے کہ دنیا کی واحد سپر پاور انہیں اقتدار سے نکالنے پر تل گئی۔ امریکہ کے لئے ملکوں میں حکومتیں تبدیل کرنا معمول کی بات ہے لیکن وہ سفارتی ذرائع سے اپنی سازشوں کے بارے میں انہیں آگاہ نہیں کرتے۔

لیکن عمران خان نے اپنے سٹینڈرڈ کے حساب سے بھی ایک حیران کن کام اس وقت کیا جب انہوں نے آرمی کو نیوٹرل ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور فتویٰ جاری کیا کہ نیوٹرل صرف جانور ہوتے ہیں۔ غلط، انسان سے نیچے کی تمام مخلوقات دراصل اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انسانوں سے کہیں زیاد یکسو ہوتی ہیں۔ ان کی فوج سے اصل مخاصمت یہ تھی کہ انہیں طاقت کے ایوانوں میں پہنچانے کے بعد جب انہوں نے سیٹی ماری تو وہ دوڑتی ہوئی ان کی مدد کو کیوں نہیں آئی۔ اور پھر انہوں نے اپنا مکر اس وقت بالکل واضح کر دیا جب ان کی پارٹی کو آئین کو سرِ عام پامال کرنے سے روکنے کے لئے عدالت رات کے وقت کھولی گئی۔ اسمبلیوں کو کارروائی کے دوران تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔ صدر غلام اسحاق خان سے پوچھا گیا کہ بینظیر بھٹو کے بار بار کہنے کے باوجود وہ اسمبلی کا اجلاس کیوں نہیں بلا رہے تھے۔ چونکہ وہ پہلے ہی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے، انہوں نے ضروری سمجھا کہ اس دوران اسمبلی کی کارروائی نہ جاری ہو۔

عدم اعتماد کی ایک تحریک پر کارروائی کے دوران اس کو تحلیل کرنا ایک بدنما ترین حرکت ہوتی۔ یہی وجہ تھی کہ PTI عدالتوں کو منظر سے غائب رکھنا چاہتی تھی۔

لیکن اس سب سے ان کے فالؤرز پر کوئی فرق نہیں پڑتا جنہیں ان کی صورت میں ایک مسیحا مل گیا ہے اور وہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ تاریکی کی گہری ترین گھاٹی میں ان کے پیچھے پیچھے وہ بھی اتر کر رہیں گے۔ دیکھیے کیسے کورس میں نئے انتخابات کا گیت گا رہے ہیں – ابھی چند ماہ قبل اسی آپشن کو وہ مضحکہ خیز قرار دیتے تھے۔

پاکستان میں شاید ہی کوئی انتخابات کے نتائج کی پیش گوئی کر سکتا ہو۔

یحییٰ خان نے بہترین تخمینے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 1970 کے انتخابات کا اعلان کیا۔ اسے یقین دلایا گیا تھا کہ ایک معلق پارلیمان وجود میں آئے گی جو اسے اقتدار میں رہنے کا جواز فراہم کرے گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ملک ہی نہ بچا جس پر حکمرانی کرنی تھی۔ 1988 کے انتخابات میں ایجنسیوں کے تمام تخمینے بے کار گئے سوائے آخری گنتی کے۔ موجودہ صورتحال میں مجھے نہیں پتہ کہ نتائج جلسوں کے حجم کے مطابق آئیں گے یا ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانے والوں کی بجائے گھر سے نکل کر ووٹ دینے والوں کی تعداد کے مطابق۔ لیکن جلد انتخابات کے مطالبے سے ایک مقصد ضرور حاصل ہوگا کہ نئی حکومت کے ہاتھ سے ملک کو مشکلات سے نکالنے کا وقت نکل جائے گا۔

اس دوران ایک اور مزید گھمبیر مسئلہ بھی حل طلب ہے۔

ملٹری کی بنائی ہوئی حکومتیں عموماً فوج اور سویلینز کے درمیان کا ایک ہائبرڈ نظام کہلاتی ہیں۔ اس کا ایک مظہر، گو افسانوی ہی سہی، Frankenstein’s Monster تھا۔ یہ اپنے بنانے والے کو ہی کھا گیا۔ اسی طرح عمران خان بھی اب اپنے بنانے والے کو کھانے پر تلا ہے۔ لیکن اس بار مسئلہ کچھ زیادہ گھمبیر ہے۔ جو پاگل پن نظر آ رہا ہے، عمران خان بوتل سے نکلا ہوا جن بن گیا ہے۔ کیا کوئی جانتا ہے اسے واپس کیسے بند کیا جائے؟

اردو کے عظیم شاعر پنڈت برج نارائن چک بست نے ہمیں قانونِ قدرت سے کھیلنے سے خبردار کیا تھا

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا




اسد درانی کا یہ مضمون Global Village Space میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی ISI اور ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔