سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور کتاب ’سپائی کرونیکلز‘ کے لکھاری جنرل اسد نے’سرخیاں‘ میں شائع ہونے والے ایک تازہ ترین آرٹیکل میں انکشاف کیا ہے کہ جنرل اسلم بیگ اور اشفاق کیانی کو بچانے کے لئے مجھے پھسایا گیا اور میرے خلاف کاروائی کی گئی۔ اپنے اوپر را کا ایجنٹ ہونے کے الزام پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ان کی کتاب کے حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا جارہا ہے۔
اپنے کالم میں جنرل اسد درانی نے لکھا کہ ہماری کتاب ’سپائی کرونیکلز‘ 23 مئی 2018 کو نئی دہلی میں لانچ کی گئی تو اسٹیج پر منموہن سنگھ اور حامد انصاری تھے۔ جو بالترتیب سابق وزیر اعظم اور نائب صدر رہ چکے تھے۔اور گفتگو کرنے والوں میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ ، ریٹائرڈ افسران و سابق وزراء ، انٹیلیجنس چیفس اور قومی سلامتی کے مشیر شامل تھے اس موقع پر اتفاق کیا گیا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ باہمی تعاون سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہوگا۔ جنرل اسد نے لکھا کہ اس سازگار لمحہ کے بعد صورت حال میں غرق ہو گیا جس کی وجہ سے کچھ ماہ بعد ان پر خوف طاری ہوگیا۔
جنرل درانی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جی ایچ کیو کے سپانسر کردہ حوالوں میں کتاب میں موجود متن کو مسخ کیا جارہا ہے ، کتاب کے اسکرپٹ کا جائزہ لئے بغیر انتہائی اہم راز افشاں کرنے جیسے الزامات لگا کر کتاب پر پابندی عائد کی گئی۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی ایسے قانون کا حوالہ نہیں دیا گیا جس کے تحت مجھ پر مقدمہ چل رہا ہے۔
اسد درانی نے کہا کہ کافی مہینوں بعد اس کی بنیادی وجوہات میں سے کم از کم ایک وجہ واضح ہونا شروع ہوگئی۔ جنرل درانی کے مطابق یہ وجہ اصغر خان کیس تھا جس میں اسلم بیگ ، جو سابق آرمی چیف تھے ، اور جنرل اسد پر سپریم کورٹ نے فرد جرم عائد کی تھی۔
اسد درانی کے مطابق جب جنرل باجوہ چیف آف آرمی سٹاف بنے تو انہوں نے اپیکس کورٹ کو راضی کیا کہ وہ جنرل درانی اور اسلم بیگ کے متعلقہ اختیارات ان کے حوالے کریں کیوں کہ یہ دونوں جی ایم کیو اور فوج میں خدمات سر انجام دے چکے تھے۔
جنرل درانی نے لکھا کہ اس کیس میں اسلم بیگ کی شمولیت ثابت کرنے کے لئے ان کی پورے دو ماہ انکوائری کی گئی۔ انہوں نے وہ سب کچھ فراہم کیا جو پہلے سے ریکارڈ کا حصہ تھا تاہم کچھ حقائق چھپائے رکھے جب تک جنرل بیگ (جو پہلے ہی سپریم کورٹ کے ایک کیس میں فریق تھا) کو کراس ایگزیمینیشن کے لئے طلب کیا گیا۔ وہ پیش نہیں ہو لہذا پچھلے دو سالوں تک کیس پر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
جنرل درانی نے کہا کہ اس بات کی سمجھ آتی ہے کیونکہ جنرل باجوہ اور اور جنرل بیگ نے بلوچ 16 کمیشن میں اکٹھے کام کیا ہے۔
جنرل درانی نے کہا کہ جنرل باجوہ کے حلقے انہیں تب سے پریشان کر رہے ہیں جب کسی نے ’سپائی کرونیکلز‘ کا نام بھی نہیں سنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ان پروگرامز میں شرکت کے لئے سیکیورٹی کلئیرنس نہیں دی گئی جہاں میری شرکت بے حد ضروری تھی۔ یہاں تک کہ جنرل محمود درانی کو اس وقت تک روکا گیا جب تک انہوں نے جنرل باجوہ کے ساتھ ان کے معاملات حل نہیں ہوئے۔
جنرل درانی نے یہ بھی لکھا کہ سابقہ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی جو جنرل باجوہ کے باس رہ چکے ہیں اور بلوچ رجمنٹ سے ہی تعلق رکھتے ہیں پر میری تنقید بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے جب اشفاق کیانی کے دور میں اسامہ بن لادن واقعے کی بنا پر میں نے کہا تھا کہ شاید یہ آرمی کے ایماء کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ اس واقعے سے ایک روز قبل اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کی طرف جانے والے تمام راستے بند کر دئیے گئے تھے۔ یقیناً پاکستان نے اس سے کچھ سٹریٹجک مفادات بھی حاصل کئے ہوں گے۔
جنرل درانی نے لکھا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب ایک دم سے عیاں ہو جائے گا۔ جنرل درانی نے مزید کہا کہ ان کے پاس میرے را کے ساتھ رابطوں کے ثبوت ہوتے تو شاید یہ مجھے ابھی تک جہنم میں ڈال چکے ہوتے۔