پاکستان میں سیاسی صورت حال کو دیکھ کر پول ٹرجسٹ (poltergeist) کا قصہ یاد آ گیا۔ پول ٹرجسٹ جرمن زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ایک ایسے بھوت کے ہیں جو شوخی مائل ہو اور ٹک کر نہ بیٹھ سکے۔ پول ٹرجسٹ کا ایک مشہور اور مصدقہ واقعہ ایک کتاب میں پڑھا تھا جو میامی، امریکہ میں ایک دکان میں رونما ہوا تھا جس میں پرانے اور قیمتی مجسمے رکھے ہوئے تھے۔ نوادرات سے دکان بھری پڑی تھی۔ اچانک ایک قیمتی اور خوب صورت مجسمہ گرا جس کے گرنے کی کوئی ظاہری وجہ نہیں تھی۔ ابھی دکان کے مالک اور سٹاف کے لوگ اس واقعے پر افسوس اور تفتیش کر رہے تھے کہ ایک اور الماری سے دوسرا قیمتی اور شیشے کا بت گرا اور پاش پاش ہو گیا۔ سب لوگ اوپر بھاگے اور اس کے ٹکڑے جمع کرنے لگے۔ اتنے میں ایک اور جانب سے مزید نوادرات کے گرنے کی آوازیں آئیں۔ پولیس نے اس واقعہ کی بڑی تفتیش کی لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور فائلوں میں یہی لکھا گیا کہ کوئی ’پول ٹرجسٹ‘ یعنی منچلا بھوت آ گیا ہو گا۔
پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت تحریک انصاف کے رہنماؤں اور الیکٹ ایبلز کی ہر روز پارٹی چھوڑنے والی پریس کانفرنسز بھی 'پول ٹرجسٹ' کی طرح ہیں کہ کوئی منچلا بھوت ہے جو ایک ایک کر کے ملک بھر سے سیاست دانوں کی پی ٹی آئی سے سیاسی وابستگی کو شیشے کی طرح پاش پاش کر رہا ہے۔
پی ٹی آئی کی وکٹیں گرنے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے جو کہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے تک چلتا رہے گا۔ ملک بھر میں گذشتہ کئی روز سے جاری اس سلسلے میں تحریک انصاف کے سب سے اہم رہنماؤں میں سابق وفاقی وزیر اور ممبر کور کمیٹی شیریں مزاری، سابق صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان، چودھری پرویز الہیٰ گروپ سے چودھری وجاہت حسین، چودھری حسین الہیٰ، مشیر وزیر اعظم برائے موسمیاتی تبدیلی ملک اسلم امین اور تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات محمد امجد، سابق ایم این اے محمود مولوی، عامر کیانی, جمشید چیمہ، مسرت جمشید چیمہ اور پی ٹی آئی کے سابق وزیر محمد اقبال نے پارٹی سے راہیں جدا کر لی ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر معدنیات مبین خلجی اور اورکزئی سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے ملک جواد حسین نے بھی پارٹی سے راہیں جدا کر لی ہیں۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایم این اے محمود مولوی، ایم پی اے ڈاکٹر عمران علی شاہ، سابق ایم این اے جے پرکاش، سنجے گنکوانی، کریم گبول اور کراچی ڈویژن کے صدر بلا غفار بھی 9 مئی کے واقعے کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کو خدا حافظ کہہ گئے۔
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر ہشام انعام اللہ، سابق ترجمان اطلاعات اجمل خان نے بھی تحریک انصاف کو خیر بار کہہ دیا۔ تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی عثمان خان ترکئی اور بلند خان ترکئی بھی کپتان کا ساتھ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں۔
جنوبی پنجاب سے ایک ہی پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے کئی الیکٹ ایبلز نے پارٹی سے راہیں جدا کر لیں۔ ان میں سابق ایم پی اے ظہیر الدین علی زئی، عون حمید ڈوگر، سابق مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب عبدالحئی دستی، مظفر گڑھ سے نیاز گشکوری، علمدار قریشی، لیہ سے قیصر مگسی، خانیوال سے ملک مجاہد میتلا، اشرف خان رند، ڈی جی خان سے سجاد چھینہ، رحیم یار خان سے خواجہ قلب الدین کوریجہ، ملک جہانزیب وارن اور ملک مجتبیٰ میتلا شامل ہیں۔
پنجاب میں ملتوی ہونے والے انتخابات میں شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر عباد فاروق اور چنیوٹ سے تحریک انصاف کے ضلعی صدر سید ذوالفقار علی شاہ نے بھی پارٹی چھوڑ دی۔ فیصل آباد سے ایم این اے فیض اللہ کموکا نے پی ٹی آئی چھوڑ دی۔ عبد الرزاق نیازی، پیر آف اُچ شریف افتخار الحسن گیلانی، سابق ایم پی اے عون حمید ڈوگر، شیخوپورہ سے جلیل شرقپوری، سابق ایم پی اے اشرف رند، سابق صوبائی وزیر سید سعید الحسن، خانیوال سے دو اہم الیکٹ ایبلزعبد الرزاق خان نیازی اور ملک مجاہد، سابق صوبائی وزیر اقبال اور نارووال سے سید الحسن شاہ شامل ہیں۔
پنجاب کے وہ علاقے جو دریائے سندھ کے ساتھ لگتے ہیں ان گرم علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی پرندے تو ویسے بھی اڈاری مارنے میں ماہر ہیں۔ ملک میں جاری کسی بھی سیاسی گرما گرمی میں بڑی مہارت کے ساتھ اپنے متعلقہ علاقوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔
جنوبی پنجاب سے بڑے خاندانی سیاست دان پارٹی بدلنے کے لئے حتمی حکمت عملی طے کر رہے ہیں۔ سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کا تعلق مختلف برادریوں سے ہے جن میں لغاری، دریشک، مخدوم، بوسن، کھوسہ، مزاری، ہنجرا، جکھڑ، ڈھانڈلہ اورسیہڑ خاندان شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے سید بساط بخاری نے رابطہ کرنے پر راقم کو بتایا کہ ' جنوبی پنجاب سے بڑے سیاسی خاندانوں نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کر کے پیپلز پارٹی میں شامل ہونا ہی تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پہلے ہی اپنا ہوم ورک مکمل کر چکی تھی'۔
ضلع بھکرسے موجودہ ایم این اے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ نے بھی تحریک انصاف کو خدا حافظ کہہ دیا جبکہ ضلع لیہ سے سابق وزیر بہادر سیہڑ تحریک انصاف چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ کوٹ ادو سے سابق ایم پی اے خرم لغاری اور عبدالحئی دستی جبکہ ضلع مظفر گڑھ سے اشرف رند بھی تحریک انصاف کی گاڑی سے اتر گئے۔
جنوبی پنجاب تین ڈویژنوں اور 12 اضلاع پر مشتمل ہے اور یہاں پنجاب اسمبلی کی 95 نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ عام انتخابات کب ہوں گے اور جب تک انتخابات کی کوئی تاریخ سامنے نہیں آ جاتی، سیاسی وفاداریاں یونہی تبدیل ہوتی رہیں گی۔