تاریخ میں پہلی بار کلاسیکل شاعر میوں شاہ عنات کے حوالے سے ادبی کانفرنس کا انعقاد

تاریخ میں پہلی بار کلاسیکل شاعر میوں شاہ عنات کے حوالے سے ادبی کانفرنس کا انعقاد
محکمہ ثقافت اور میوں شاہ عنات رضوی فاؤنڈیشن کے اشتراک سے تاریخ میں پہلی بار سندھ کے کلاسیکل و اثاثی شاعر میوں شاہ عنات رضوی کے حوالے سے ادبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔

ٹنڈوالہیار میں سندھ کے کلاسیکل شاعر میوں شاہ عنات رضوی کے حوالے سے ادبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس موقع پر وزیر ثقافت، سیاحت و نوادرات سید سردار علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھی ادب میں پائینیرز کی حیثیت رکھنے والے میوں شاہ عنات رضوی نے شاہ عبداللطیف بھٹائی سے بھی پہلے لوک داستانوں کو اپنی شاعری میں قلمبند کیا اور وہ سندھی میں وائی اور بیت کے موجد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ ثقافت، میوں شاہ عنات رضوی کے خاندان یا سندھ کے مجموعی ادبی حلقے کی جانب سے بہت پہلے ہی میوں شاہ عنات رضوی کے حوالے سے اس طرح کے ادبی پروگرامز منعقد کرنے چاہیے تھے لیکن پھر بھی دیر آید درست آید۔ آئندہ ہر سال ان کی ادبی کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

اس موقع پر سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، میوں شاہ عنات کے سجادہ نشین و رکن سندھ اسمبلی ضیا عباس شاہ، صوبائی وزیر لائیو سٹاک عبدالباری پتافی، فراز ڈیرو، امداد پتافی، سیکریٹری کلچر اکبر لغاری، سندھ کے نامور ادیب و دانشور اور بہت بڑی تعداد میں میوں شاہ عنات درگاہ کے معقتدین نے شرکت کی۔

میڈیا کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال پر وزیر ثقافت نے کہا کہ کوئی شاعر بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا اس کی شاعری ہی کو اس کو  لافانی بنا دیتی ہے۔ میوں شاہ عنات رضوی نے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کو کہا تھا کہ ہم نے زمینی کھیڑی ہے تم سمندر کھیڑو گے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میوں شاہ عنات رضوی کے کلام کا تسلسل ہے۔

انہوں نے کہا کہ میوں شاہ عنات رضوی، شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ایک طرح سے استاد کی حیثیت رکھتے تھے اور اب ہم  سب کو میوں شاہ عنات کی انسپریشن کو تلاش اور تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے محکمہ ثقافت کے صرف تکنیکی تعاون سے میوں شاہ عنات رضوی فاؤنڈیشن کی طرف سے ان کے پیغام کو عام کرنے کیلئے ان کی شاعری کے مجموعے کو اردو اور انگریزی زبانوں میں بھی ترجمہ کروائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج کی اس تقریب کا منتظم میوں شاہ عنات رضوی کا خاندان ہے جبکہ محکمہ ثقافت کی جانب سے انہیں ٹیکنیکل سپورٹ دی گئی ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے سابق وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ شاہ عنات کے حوالے سے اس طرح کے پروگرام کا انعقاد بہت اچھی روایت ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام آفاقی پیغام ہے۔ تاہم عنات شاہ رضوی کا پیغام بھی امن اور محبت کا پیغام ہے اور سندھ دھرتی اولیا کرام کی دعا سے آباد ہے اور تا قیامت آباد رہے گی۔

خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے میوں شاہ عنات کے سجادہ نشین اور رکن سندھ اسمبلی ضیا عباس شاہ نے میوں شاہ عنات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طالبعلموں کو اسکالرشپ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ آج میوں شاہ عنات فاؤنڈیشن کی طرف سے منعقدہ ادبی کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالاجات کو کتابی شکل میں شائع کروایا جائے گا اور بہت جلد ٹنڈوالہیار میں لائبریری بھی قائم کی جائے گی جس سے گرد و نواح کے لوگ استفادہ کر سکیں گے۔

بعد ازاں میوں شاہ عنات ادبی کانفرنس میں تاج جویو، شوکت شورو، امداد حسینی، ادل سومرو، انور فگار ھکڑو، مدد علی سندھی، احسان دانش، فیاض لطیف، شازیہ پتافی، ارباب نیک محمد، خلیل کھوسو، علی آکاش، عبدالطیف دائیدانو، سید مرید علی شاہ، ڈاکٹر سحر امداد اور دیگر اسکالرز نے اپنے مقالے پیش کیے۔

اس موقع پر مدد علی سندھی نے کہا کہ میوں شاہ عنات رضوی کے وقت میں سندھ کی سیاسی صورتحال بہت اچھی تھی اور زرعی طور پر بھی سندھ کی صورتحال کافی بہتر تھی۔

 

شازیہ پتافی نے کہا کہ ماروی جس نے مال و دولت کو ترک کر کے اپنے رشتے داروں کو اور وطن کو ترجیح دی اور ماروی کے اس قصے اور جدوجہد کو شاہ عنات رضوی نے شاہ بھٹائی سے بھی پہلے اپنی شاعری میں سمو دیا۔

ارباب نیک محمد نے اپنا مقالا پیش کرتے ہو ئے کہا کہ تحفتہ الکرام کا حوالا دیتے ہوئے کہا کہ حضرت شاہ عنات رضوی نے سندھی زبان بولنے والے لوحوں سے رشتہ جوڑا اور اپنا وجود لوگوں کی خدمت میں وقف کیا۔ آج کی یہ کانفرنس میوں شاہ عنات رضوی کے کلام کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ادبی کانفرنس ہر سال منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر سحر امداد حسینی نے ادبی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میوں شاہ عنات رضوی نصرپور کے سادات خاندان سے تعلق رکھنے والے کلاسیکل شاعر تھے۔ جنہوں نے اپنے کلام کے ذریعے وحدانیت کا درس دیا اور وہ مولود اور وائی سمیت سندھی شاعری کے دیگر صنفوں کے موجد تھے۔

خلیل کھوسو نے بتایا کہ شاہ عنات نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کو شاعری کرنے کیلئے راہ ہموار کر کے دی اور وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے معاون شاعر تھے۔ جنہوں نے سندھ کے تمام ادیبوں کیلئے ایک رستہ بنایا ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر ہم نہ صرف اچھے انسان بن سکتے بلکہ ہم دنیا میں پیار و محبت کے پیغام کو بھی عام کر سکتے ہیں۔

دریں اثنا میوں شاہ عنات رضوی فاؤنڈیشن کی جانب سے میوں شاہ عنات کی شاعری کے حوالے سے شائع کردہ تین کتب کی رونمائی کی گئی۔

بعدازاں محفل موسیقی کا انعقاد کیا گیا جس میں مظہر ذوالفقار، شفیع فقیر، راشد حیدری، دلبر جلال چانڈیو، فرزانہ بہار اور دیگر فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔