'آج ارشد شریف کی صحافت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک انسان قتل ہوا ہے، ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہئیے'

'آج ارشد شریف کی صحافت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک انسان قتل ہوا ہے، ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہئیے'
معروف دانش ور مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ آج ارشد شریف کی صحافت کی بات نہیں ہے، آج بات یہ ہے کہ ایک انسان قتل ہوا ہے، وہ پاکستان کا شہری ہے، پاکستان کی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ آج ملک میں چار سال پہلے والی مجرمانہ خاموشی نہیں نظر آئی۔ آج ہر طرف سے مذمت ہوئی ہے۔ مگر یہ کافی نہیں ہے۔ بااختیار عالمی ادارے بھی سامنے آئیں اور اپنا کردار ادا کریں۔ کینیا کی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ بتائیں کہ یہ واقعہ شناخت غلط ہونے کی وجہ سے ہوا یا یہ قتل جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر کیا گیا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں ڈیفے میشن کے قوانین بہتر بنائیں اور مچھر کو توپ کے گولے سے نہ ماریں۔ پی ٹی آئی والے آج بھی سوشل میڈیا پر غلیظ قسم کی کمپین چلا رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی والوں نے اس سے پہلے والے حملوں پر کبھی مذمت تک نہیں کی۔ ابصار عالم بھی آج ان کے گھر گئے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بارے میں مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ اوریجنل گناہ وہ تھا جب پارلیمان نے انیسویں ترمیم میں اپنا اختیار غیر منتخب ججوں کے حوالے کر دیا تھا۔ ایک سندھی کہاوت ہے کہ اونٹوں نے اس وقت ہی رونا شروع کر دیا تھا جب بوریاں سل رہی تھیں۔

معروف کالم نگار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ ہم ارشد شریف کی صحافت سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر اس کے قتل کو جائز نہیں کہ سکتے۔ اس کی مذمت کی جانی چاہئیے اور پورے ملک میں یہ مذمت کی بھی جا رہی ہے۔ جنہوں نے اسے پروموٹ کیا تھا آج انہی کے ساتھ ان کا تنازعہ چل رہا تھا۔ عوام نے سوشل میڈیا پر ان کے قاتل کو نامزد کر دیا ہے۔ ان کے بیرون ملک جانے کی سمجھ نہیں آ رہی۔ باقی اتنے سارے صحافی ہیں جن پہ حملے ہوئے مگر وہ پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ ان کا قتل یہ بتاتا ہے کہ اگر وہ ملک میں رہ کے دباؤ کا سامنا کرتے تو زیادہ محفوظ رہتے۔ جو لوگ ملک چھوڑ کے جانے والوں کو چور، غدار کہتے رہے انہیں خود ملک چھوڑ کے نہیں جانا چاہئیے تھا۔ یہ لوگ بیماروں کا مذاق اڑاتے تھے اور جب خود شہباز گل جیل جا کر بیمار ہو گئے تو پھر موازنہ کرنا بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں من پسند ججز کی تعیناتی جسٹس عمر عطا بندیال کی وقتی جیت تو ہو سکتی ہے مگر یہ ان کے نام پر ایک سٹگما بن جائے گا۔ جسٹس بندیال نے بینج فکسنگ کو ایک مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججوں نے آج ان تعیناتیوں کی مخالفت کی ہے۔ یہ متنازعہ تعیناتیاں ہیں۔ عدلیہ نے منتخب نمائندوں کو گھر بھیج کر اور پارلیمان کی توہین پر فخر کرنا شروع کر دیا ہے۔ آج وقت آ گیا ہے کہ اس منہ زور گھوڑے پر بھی کاٹھی ڈالی جائے۔ یہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرح نقصان دہ ہو چکے ہیں۔

معروف تحقیقاتی صحافی اسد طور کا کہنا تھا کہ ارشد شریف سے ہمارے شدید اختلافات رہے مگر ان کے ساتھ جو ہوا اس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی اپنے بدترین مخالف کے لیے بھی یہ نہیں چاہا کہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ یہاں سپریم کورٹ بھی صحافیوں کو انصاف نہیں دلا سکی۔ کینیا کی پولیس تو بدنام زمانہ ہے۔ ہو سکتا ہے انہیں اس قتل کے لیے پیسے دیے گئے ہوں۔
اسد طور نے خبر دی کہ آج سپریم جوڈیشل کمیشن کا گرما گرم اجلاس ہوا جس میں شدید تلخی ہوئی ہے۔ اختلافی گفتگو بہت ذاتی نکتے تک پہنچ گئی اور اداکارہ شبنم اور فاروق بندیال والے معاملے پر بھی بات ہوئی۔ (ن) لیگ نے اپنے ووٹ بیچ دیے اور وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے پاس اس یوٹرن کی کوئی توجیح بھی نہیں تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ڈکٹیٹرشپ نہیں چلے گی کہ چیف جسٹس کوئی نام لے آئیں اور وہی نام منظور ہوگا۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی نے کہا کہ 2011 میں صحافی سلیم شہزاد کا قتل آج تک ایک معما ہے۔ حامد میر پر حملے کا بھی کمیشن بنا مگر رپورٹ آج تک نہیں آئی۔ کبھی تو ایسا ہو کہ پاکستان میں بھی حقیقت سامنے آئے اور ذمہ داروں کا محاسبہ ہو۔ پروگرام ہر پیر سے ہفتے کی رات کو 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔