پاکستانی سنیما پھر سے عروج کا دور کب دیکھے گا؟

سنیما مالکان سمجھتے ہیں کہ بھارتی فلم انڈسٹری ہر جمعہ کو نئی فلم ریلیز کرتی ہے۔ پاکستان میں اگر انہیں دکھانے کی اجازت مل جائے تو سنیما گھروں میں رونقیں بحال ہونا شروع ہو جائیں گی اور دیکھا دیکھی میں پاکستان میں فلموں کی تعداد بھی بڑھنا شروع ہو جائے گی۔

پاکستانی سنیما پھر سے عروج کا دور کب دیکھے گا؟

پاکستان میں فلم انڈسٹری ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ سال میں یا دو سال میں ایک اچھی فلم ہی سنیما کی زینت بنتی ہے۔ ہماری فلم کا معیار بالی ووڈ جیسا ہے اور نا ہی ہالی ووڈ جیسا۔ ہم نے اچھی کہانی فلمانا چھوڑ دیا ہے۔ ہم ڈرامہ انڈسٹری والی کہانی بنانا چاہتے ہیں۔ اگر کچھ مختلف کہانی کوئی کہنا چاہتا ہے یا تو اسے مذہبی انتہا پسندی روک دیتی ہے یا سینسر بورڈ والے۔ سیاسی بھرتیوں کے باعث پاکستانی سینسر بورڈ میں ایسے لوگ شامل کیے گئے ہیں جن کا سنیما اور فلم انڈسٹری سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اتنے زیادہ ہدایت کار موجود نہیں جو ہر ہفتے یا ہر مہینے اچھی فلم سنیما کی نذر کر سکیں۔ اچھے لکھاری تو نظر ہی نہیں آتے۔

ناصر ادیب صاحب جو 'مولا جٹ' اور 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' کے لکھاری ہیں، ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ پاکستان میں فلم لکھاری کو اہمیت دی جاتی ہے اور نا ہی اتنا معاوضہ دیا جاتا ہے کہ لکھاری اس میں دلچسپی لیں۔ میڈم نورجہاں اور مہدی حسن کے فلمی گانوں تک تو فلم انڈسٹری کے گانے بہت مقبول رہے مگر جیسے ہی فلم انڈسٹری نیچے جانا شروع ہوئی اور میڈم نورجہاں اور مہدی حسن کے بعد ان کی جگہ ہمارے پاپ سنگرز نے لے لی، لوگوں کو پہلے فلم سنیما میں بھلی لگتی ہو یا نہیں، موسیقی سننے چلے جاتے تھے لیکن اب تو ایسا بھی نہیں ہے۔ بھارت میں فلم کی کامیابی میں فلم کی کہانی کے ساتھ ساتھ موسیقی کی مقبولیت بھی اہم تصور کی جاتی ہے۔

پاکستان کی سنیما صنعت کا ماضی معروف اور مثبت تاریخ سے بھرا ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی فلموں کے انتہائی عروج کے دور یعنی 1970-80 میں پورے پاکستان میں 950 سے زائد سنیما گھر موجود تھے جن میں سے 60 فیصد پنجاب میں تھے اور ان کی تعداد 620 کے لگ بھگ تھی جبکہ صوبہ سندھ میں یہ تعداد 262 تھی۔ شہروں میں اگر سنیما کی تعداد دیکھی جائے تو سب سے زیادہ کراچی اور لاہور میں سنیما گھر موجود تھے۔ سب سے زیادہ مقبول ناز سینما شمار کیا جاتا تھا۔ سنیما کی بدقسمتی کہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا دور اقتدار آیا۔ ان کے دور میں فلم انڈسٹری پہ زوال شروع ہوا۔ بے جا پابندیاں لگائی گئیں۔ اسی دور میں وی سی آر ہر گھر کی زینت بنا جس سے سنیما کا رحجان کم ہوتا چلا گیا اور سنیماؤں کی یہ تعداد کم ہوتے ہوتے 2022 میں ملک بھر میں محض 135 سکرینز تک محدود ہو کے رہ گئی۔ جو باقی ماندہ سنیما ہیں ان میں مقامی فلم انڈسٹری کی فلم نہ لگنے کے برابر ہے مگر ان میں بھی لوگوں کے لیے انٹرٹینمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔

پچھلے دنوں پوری دنیا میں سینما کا عالمی دن منایا گیا۔ ہمارے ملک میں ابھی بھی یہ بحث ہوتی ہے کہ بھارت کی فلموں کو اجازت ملنی چاہئیے یا نہیں مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ پاکستان کے سنیما کو آباد کرنے کے لیے کیا اقدامات ہونے چاہئیں۔ ہماری فلمیں یا تو عید پر یا کسی تہوار پہ ریلیز کی جاتی ہیں، پھر سارا سال سنیما میں اس طرح سے رش نظر آتا ہے اور نا ہی اس طرح کی کہانی دیکھنے کو ملتی ہے جو بار بار جا کر دیکھی جا سکے۔ پاکستانی فلم 'دی لیجنڈ آف مولا جٹ' نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ فلم نے 200 کروڑ سے زائد کا بزنس کیا۔ پاکستانی عوام اچھا کانٹینٹ، اچھی سنیماٹوگرافی بڑے پردے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد پھرسے سنیما خاموش ہے۔ اب پاکستان میں باہر شوٹ ہونے والی پنجابی فلموں کو دکھانا شروع کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے مگر سنیما مالکان سمجھتے ہیں کہ بھارتی فلم انڈسٹری ہر جمعہ کو نئی فلم ریلیز کرتی ہے۔ پاکستان میں اگر انہیں دکھانے کی اجازت مل جائے تو سنیما گھروں میں رونقیں بحال ہونا شروع ہو جائیں گی اور دیکھا دیکھی میں پاکستان میں فلموں کی تعداد بھی بڑھنا شروع ہو جائے گی۔

یہ بات ضروری ہے کہ پاکستانی سنیماؤں کو ترقی کی طرف لے جانے کے لیے موجودہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ سنیما مؤثر ترقی کر سکے اور عوامی دلچسپی میں اضافہ ہو۔ ایسی ترقی کی راہ میں سنیماؤں کو مالی اور قومی حمایت فراہم کرنے کی بھی اہمیت ہے تا کہ وہ قوت حاصل کر سکیں اور مواد تیار کر سکیں جو عوام کو متاثر کر سکے اور ثقافت کی ترویج میں مدد فراہم کرے۔

اس طرح سے پاکستانی سنیماؤں کو دوبارہ ترقی کی راہوں پر لے جانے کی کوشش کرنا ضروری ہے تا کہ یہ ایک اہم ثقافتی منصوبہ بن سکے۔ مزہ تو تب آئے گا جب بھارتی فلم اور ہماری فلم اکٹھی لگی ہو گی اور ہماری فلم دیکھنے والے لوگ زیادہ ہوں گے۔ لوگوں کو انٹرٹینمنٹ کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملنے چاہئیں۔