بھکر کا مشہور کیس ہے، ایک کتے نے بچے کو کاٹ لیا۔ بچے کے وارث کیس لے کر عدالت چلے گئے۔ کیس کی شنوائی ہوئی اور بچے کو کاٹنے کے جرم میں عدالت نے کتے کو سزائے موت سنا دی۔ یہ حکم اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت نے سنایا۔ اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ سزائے موت کا فیصلہ انسانی ہمدردی کے تحت سنایا گیا۔ کتے کے مالک کا نام جمیل ہے۔ اس نے کہا کہ بچے کے ورثا نے عدالت میں مقدمہ درج کرایا تھا جس میں وہ ایک ہفتہ جیل کی سزا بھی کاٹ چکا ہے۔ جب کتے کے مالک نے سزا کاٹ لی ہے تو اب کتے کو سزا دینا انصاف کے خلاف ہے۔ لہٰذا میں بحیثیت کتے کے مالک کے، اس فیصلے کے خلاف ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل کی عدالت سے رجوع کروں گا۔
میری زندگی کا یہ پہلا کیس تھا جس میں کتا اور مالک دونوں رگڑے گئے ورنہ عموماً ملک پاکستان میں کتے ہی کام آتے ہیں اور مالک صاف بچ جاتے ہیں۔ کئی مالکوں نے کتے رکھے ہی اس لیے ہوتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آئیں۔ ہمارے یہاں ایسے مالک کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں جو کتے پالنے میں بہت مشہور ہیں۔ آپ کسی بھی مالک کے ڈیرے پر چلے جائیں آپ کو وہاں کتوں کی بہتات نظر آئے گی۔ مالک بھی ان کتوں سے بڑا پیار کرتے ہیں، ان کے لیے الگ سے مکانات بنائے جاتے ہیں، گاڑیوں کا انتظام کیا جاتا ہے، اعلیٰ خوراک مہیا کی جاتی ہے، ان کے آرام سکون کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور جب ضرورت پڑتی ہے تو ان کو شکار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ کتے شکار کی طرف جاتے ہیں اور بھوں بھوں کر کے شکار کو مالک کا پیغام دیتے ہیں۔ اگر شکار کی حالت عوام کی طرح پتلی ہو تو وہ اس کے مالک کے مطالبے کے سامنے سرِتسلیم خم کر لیتا ہے اور شکار ہونے سے بچ جاتا ہے۔ اگر شکار تھوڑی سی اکڑفوں دکھائے تو کتے پر لازمی ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے شکار کو قابو کرے، خواہ اسے مارے یا خود مر جائے۔ اگر کتا شکار کو مار ڈالے تو مالک ایسے کتے کو کچھ عرصے کے لیے انڈرگراؤنڈ کر دیتے ہیں۔ ایسے کتوں کو اشتہاری قرار دیا جاتا ہے۔ جب حالات سازگار ہوتے ہیں تو یہ باہر نکلتے ہیں اور ایک بار پھر شکار پر لگ جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے یہاں تک کہ یہ اشتہاری کتے کسی اور کتے کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔
اشتہاری کتا مر جائے تو مالک کے لیے بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ مالک کو کسی بھی ناگہانی صورتحال سے بچنے کے لیے ایک بیان جاری کرنا پڑتا ہے کہ فلاں اشتہاری کتے کا تعلق ہم سے جوڑ کر ہمارے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ لیکن ہم سازش کو ناکام بنائیں گے اور خدمت کا سفر جاری رکھیں گے۔ یوں ان کی خدمت کا سفر جاری رہتا ہے اور اس سفر میں کتے ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔
وفاداری ان کتوں کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے۔ جو لوگ انسان کم اور مالک زیادہ ہوتے ہیں، انہوں نے لازمی ایک یا ایک سے زیادہ کتے رکھے ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی انسان گلی سے گزرتا ہے تو وہ چھت پر سے اسے ڈراتے رہتے ہیں۔ اب تو مالکوں نے زیادہ تر کتے گیٹ کے باہر ہی بٹھائے ہوتے ہیں۔ مالکوں سے پوچھو کہ یہ کتے کیوں رکھے ہوئے ہیں تو جواب دیتے ہیں کہ انسانوں سے حفاظت کے لیے۔ سن کر دماغ ٹھکانے آجاتا ہے کہ ایسا وقت بھی آنا تھا کہ انسانوں سے بچنے کے لیے انسان کتے رکھنا شروع کر دے گا۔ کتوں سے پوچھو کہ تم ان کی خاطر خود کی جان جوکھم میں کیوں ڈالتے ہو؟ جواب ملتا ہے کہ پاپی پیٹ کا سوال ہے۔
اسی طرح کبھی آپ کا اتفاق ہوا ہوگا کہ آپ جلدی میں ہیں اور اپنی گاڑی کو بھگاتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ سے آگے ایک اور گاڑی جا رہی ہے اورجب آپ اسے کراس کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو رکھے گئے کتے غصے سے آپ کو دیکھنے لگتے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ سٹیٹس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فاصلہ رکھنا لازمی ہے۔ انسانوں سے کتے کی وفاداری دیکھ کر کئی دفعہ لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ تم سے تو کتا بہتر ہے۔ لیکن اس کتے کی بدنصیبی کہ اسے مالک یا کتے کی بجائے عدالت کے ہاتھوں سزائے موت سنائی گئی۔
انسانوں کو سزائے موت ملنے کا سنتے آئے ہیں لیکن یہاں کتے کو بھی سزائے موت مل گئی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں واقعی کتے اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اب سمجھ نہیں آتی کہ مالک کو کتا رکھنے کی سزا دی جارہی ہے یا کتے کو مالک سے وفاداری کی؟ بہرحال جو بھی ہو چلو اتنا تو ہوا کہ کسی کتے کو صرف کاٹنے کے جرم میں سزائے موت مل گئی ورنہ تو یہاں کئی کتے گھر اجاڑ کے بیٹھے ہیں اور ان کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔
اس خبر میں کتوں کے لیے بھی ایک امید افزا پیغام موجود ہے کہ اب ان کے مالک ان کا کیس لڑا کریں گے۔ ورنہ اس سے پہلے کئی کتے یہ شکوہ کرتے پائے گئے ہیں کہ ان کے مالک انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ ایسے شکوہ کناں کتوں کو خوشخبری ہو کہ اب ان کے مالک ان کا کیس ضرور لڑیں گے۔ اگر اتنا بھی نہ ہوا تو مالک کم از کم انہیں کتے کی موت مرنے سے بچانے کی کوشش ضرور کریں گے، تاکہ ان کے کتے انسانوں کی موت مر سکیں۔
ورنہ اس سے پہلے تو مالک اپنے کتوں سے کام لیتے تھے اور جب مشکل وقت آتا تھا تو اپنے آپ کو بچانے کے لیے ان کو خود اپنے ہاتھوں مار دیتے تھے یا ان پر چھاپا پڑوا دیتے تھے۔ لیکن اس ضمن میں کتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب کہ وہ اپنا منہ بند رکھیں۔ اگر انہوں نے منہ کھولنا شروع کر دیا تو پھر انہیں کتے کی موت بھی مارا جا سکتا ہے اور انسانوں کی موت بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ اب یہ سوچنا کتوں کا کام ہے کہ انہیں انسانوں کی موت چاہیے یا کتوں کی سی؟ ہاں! میرا ایک مشورہ ہے کہ انسانوں کی سی موت کی خواہش کرنے سے پہلے انہیں سانحہ ساہیوال اور صلاح الدین کے انجام پر ضرور غور کرنا چاہیے۔