وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گرین بلٹس کے اوپر ماڈل جیل اسلام آباد کے باؤنڈری وال کے لئے غیر قانونی زمین الاٹ کرنے اور غیر قانونی تعمیرات سمیت ماحولیات کو نقصان پہنچانے پر وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) اسلام آباد انتظامیہ اور پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات کرنے کا عندیہ دیا۔
وفاقی کابینہ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو احکامات دئیے تھے کہ اسلام آباد ماڈل جیل کے لئے سی ڈی اے کی جانب سے گرین بلٹس کے اوپر زمین الاٹ کرنے، پاک پی ڈبلیو ڈی کے غیر قانونی تعمیرات سمیت اسلام آباد انتظامیہ کی نااہلی اور غفلت پر انکوائری کی جائے جس پر ایف ائی اے نے انکوائری مکمل کرکے وزیر اعظم پاکستان کو جمع کردی اور انکوائری میں سفارش کی گئی کہ غفلت اور قانون کی خلاف ورزیوں کو نہ صرف روکا جائے بلکہ اس کے ساتھ ملوث افسران کے خلاف کاروائی بھی کی جائے۔
انکوائری میں لکھا گیا ہے کہ سی ڈی اے نے اسلام آباد ماڈل جیل کے لئے ایک ایسی زمین مختص کی جہاں پر پہلے سے گرین بیلٹس واقع تھے اور اسلام آباد کے ماسٹر پلان اور ماحولیاتی قوانین کی روشنی میں گرین ایریا کے اوپر تعمیرات پر پابندی ہے۔ انکوائری میں لکھا گیا ہے کہ سی ڈی اے کی نااہلی کی وجہ سے دارلخلافے میں ماحولیات کو نقصان پہنچا اور گرین بیلٹ تباہ کی گئی۔
انکوائری میں سی ڈی اے کے لینڈ سروے ڈویژن کے مخکمے کو بھی زمہ دار قرار دیکر لکھا گیا ہے کہ لینڈ سروے ڈپارٹمنٹ کی نااہلی کی وجہ سے اسلام آباد ماسٹر پلان اور ماحولیات قوانین کی خلاف ورزی ہوئی کیونکہ انھوں نے موقع پر جاکر زمین کی جان کاری نہیں کی۔
تحقیقاتی ادارے نے اسلام آبادکے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کو بھی زمہ دار قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پی ڈبلیو ڈی نے اپنے کنسلٹنٹس M/S NCL- CMES & M/S Sikandar Associates
کے ذریعے غیر قانونی تعمیرات کی اور کسی ادارے سے اجازت نہیں لی کہ یہ زمین کس کیٹیگری کی ہے۔ انکوائری میں لکھا گیا ہے کہ بلڈنگ پلان کی منظوری لئے بغیر غیر قانونی تعمیرات پر ادارے کے خلاف ایکشن لیا جائے اور ملوث ملازمین کی نشاندہی کی جائے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں واضح کیا گیا ہے کہ سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے اور گرین بیلٹ کے اوپر تعمیرات کے باؤجود نہ علاقے کا دورہ کیا تاکہ تعمیرات کو روکا جائے اور نہ ہی ادارے کو اس حوالے سے خبر دی۔
اسلام آباد انتظامیہ پر زمہ داری ڈالتے ہوئے انکوائری میں بیان کیا گیا ہے کہ انتظامیہ نے بغیر کسی معاہدے کے زمین تعمیرات کے لئے پی ڈبلیو ڈی کے حوالے کی جس سے قوانین کی خلاف ورزی سمیت ماحولیات کو بھی نقصان پہنچا۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ اس غیر قانونی منصوبے سے نہ صرف ملکی خزانے کو پچاس کروڑ کا نقصان ہوا بلکہ ماحولیات کو نقصان بھی پہنچا۔
انکوائری رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ غیر قانونی منصوبے اور ماحولیات کو نقصان پہنچانے میں سی ڈی اے، اسلام آباد انتظامیہ اور پاک-پی ڈبلیو ڈی تینوں ملوث ہے اس لئے ان افسران اور ملازمین کے خلاف کارروائی کی جائے جو اس میں ملوث ہوئے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایک افسر نے بتایا کہ وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس منصوبے کو قانونی بنانے اور قانون میں ترامیم کی اجازت نہیں دی اور اب ایسا لگتا ہے کہ یہ اگے جاکر نیب کے پاس جائے گا جو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی صوابدید ہے۔
سی ڈی اے کے ترجمان مظہر حسین کو ایک سوال نامہ بھیجا گیا مگر انھوں نےکوئی جواب نہیں دیا۔