آج افغان مہاجر بچوں کو لاہور میں کوڑا کھنگالتے اور بھیک مانگتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ سنا تھا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور یقیناً اس دور میں ہم نے دیکھ بھی لیا۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک لحاظ سے پوری دنیا میں صرف مسلم ممالک ہی جنگی صورتحال میں الجھے نظر آتے ہیں ۔ بچپن میں سرکاری ٹیلی ویژن پر خبرنامہ بوسنیا میں مظالم سے شروع ہوتا اور یوں آزربائیجان کے راستے کشمیر کی طرف منہ کرتے ہوئے افغانستان پہنچتا اور پھر فلسطین پر جا کر رکتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس میں اضافہ ہو گیا مصر، عراق ،شام، لبنان، لیبیا اور یمن جیسے ممالک کی صورت میں۔ کون جیتا کون ہارا اس مدعی پر شاید قیامت تک بحث ہوتی رہے گی۔
آج سے 20 سال پہلے طالبان بچیوں کی تعلیم کے خلاف تھے آج اقتدار ملنے کے بعد لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت مل گئی۔ افغانیوں کی کئی نسلیں اس جنگ میں تباہ ہو گئیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کھویا کیا پایا؟ ایک تصویر دو دہائی پہلے اظہر جعفری کی بنائی ہوئی ہے جہاں مہاجر بچہ اپنی ماں کی گود میں ہے اور باقی چند اس دور کی میری بنائی ہوئی تصاویر ہیں۔ یہ تو وقت نے فیصلہ سنا دیا جو قوم اپنے حقوق کے لئے نہیں لڑتی اس کی مدد کوئی نہیں کر سکتا۔ ان بچوں کا مستقبل افغان عوام کے اپنے ہاتھ میں ہے۔