کرکٹ کو عام طور پر (gentelman's game)یا شریف لوگوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے لیکن اس کھیل میں فاسٹ بالر وہ واحد کھلاڑی ہے جو اپنے مخالف بیٹسمین کو خوفزدہ کرنے اور اس کے جسم کو نشانہ بنانے کے لیے باؤنسر اور نو بالز کے ذریعے فاؤل پلے کرتا ہے۔ بیٹسمین اس کی جتنی پٹائی کرتا ہے فاسٹ بالر غصّے میں اتنے ہی زیادہ نو بالز کرواتا ہے اور بعض اوقات ایمپائر سے اس کو توتکار بھی ہو جاتی ہے اور اسے کھیل سے آؤٹ بھی کر دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس کھلاڑی میں غصّہ اور جارحیت نہ ہو وہ فاسٹ بالر نہیں بن سکتا اور جس میں تحمّل اور بردباری نہ ہو وہ ایک اچھا بیٹسمین ثابت نہیں ہوسکتا۔
لیکن سیاست کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ یہاں قول و فعل کا تضاد زیادہ دیر تک نہیں چلتا۔ اور جلد یا بدیر لوگ اس سیاستدان سے متنفّر ہو جاتے ہیں جسکی تضاد بیانی اور بے اصولی حد سے زیادہ بڑھ جائے اور جس کا واحد مقصد ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اقتدار حاصل کرنا ہو۔ عمران خان کا شمار بھی ایک ایسے ہی فاسٹ بالر نما سیاست دان کے طور پر ہوتا ہے۔ جس میں ایک زیرک سیاستدان کی نسبت، جارحیت پسند فاسٹ بالر کا غصّہ اور انتقام زیادہ نمایاں ہے۔ جو ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھتا جار ہا ہے اس کوشش میں قوم خوفناک حد تک تقسیم اور عدم برداشت کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ انتشار و انا رکی کی یہ کیفیت اور اداروں کے ساتھ مسلسل ٹکراؤ ہمیں ایک ایسی بند گلی میں لے جا رہا ہے جہاں واپسی آسان نہیں ہوگی۔؎
اس ساری صورتِ حال کے اصل ذمہ دار تو وہ حلقے ہیں۔ جو نئے نئے بُت تراشتے اور انہیں توڑتے رہتے ہیں۔ نہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ بندے میں اہلیت بھی ہے یا نہیں یا اس کا ماضی کا ریکارڈ کیسا ہے۔ عمران خان نے 2014سے لیکر تا حال صرف ایک بات ثابت کی ہے کہ بطورِ اپوزیشن لیڈر اور حکمران کے انہوں نے ہمیشہ جھوٹ اور بہتان تراشی کی سیاست کی ہے۔ وہ نہ تو خود حکمرانی کی صلاحیتیں رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی کو حکومت کرنے کا موقع دینے کا ظرف رکھتے ہیں۔ تضاد بیانی کا یہ عالم ہے کہ اپنے بدترین دورِ حکومت کو جس میں پاکستان، معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے تباہ ہوگیا اسے پاکستان کی تاریخ کا بہترین دورقرار دیتے ہیں۔
میں نے ان کے جھوٹ کے بارے میں ایک مرتبہ لکّھا تھا کہ ایک دن وہ بھی آسکتا ہے جب وہ یہ دعوےٰ بھی کرسکتے ہیں کہ RTSانہیں جتوانے کے لیے نہیں بلکہ دو تہائی اکثریت سے محروم کرنے کے لیے بٹھایا گیا تھا۔ اور یہی بات انہوں نے برادرم حامد میر کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات میں کہہ بھی دی ہے۔ ان کے دور میں اپوزیشن کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے کہ کوئی قابلِ ذکر اپوزیشن لیڈر ایسا نہیں تھا۔ جسے جیل کی ہوا نہ کھانا پڑی ہو۔ لیکن ابھی صرف ان کے چیف آف سٹاف شہباز گِل کو گرفتار کیا گیا وہ بھی فوج میں بغاوت پھیلانے کے خوفناک جرم میں۔ تو خان صاحب اور انکی پارٹی نے تشدّد کا واویلا مچانا شروع کردیا۔ اور عدالتوں کو بھی دباؤ میں لانے کی خاطر نام لیکر خاتون جج کو کھلے عام دھمکیاں دیں۔
وہ ایک ایسے فاشٹ شخص کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ جو اپنے مخالفین کو صفحہء ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے گالم گلوچ اور دھمکیوں کا جو کلچر متعارف کروایا ہے۔ اس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ انتظامیہ، عدلیہ، الیکشن کمشنزاور دوسرے اداروں کی غیر جانبداری برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائرز کا کریڈٹ لینے والے عمران خان کو زندگی کے کسی اور شعبے میں غیر جانبداری یا نیوٹرل ہونا گوارہ نہیں۔
کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ انسان کو تو ہمیشہ جانبدار ہونا چاہیے، حق کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی میرے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ صرف میں حق پر ہوں۔ اسی گھمنڈمیں ان کی کسی سے زیادہ دیر تک بنی۔ جو کوئی ان کے قریب آیا۔ وہ اُن سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گیا۔ اس میں چاہے ان کی بیوی ہو، پرانے دوست ہوں، سیاسی کارکن ہوں، قریبی رشتے دار ہوں یا وہ لوگ جو انہیں اپنے کندھوں پر بٹھا کر نہ صرف اقتدار میں لائے بلکہ ان کے لیے سارے زمانے میں بدنام ہوتے رہے۔
صرف یہی نہیں انکے سیاسی پھوہڑ پن کی وجہ سے پاکستان اپنے قریبی دوست ممالک سے بھی دور ہوگیا۔ دروغ گوئی کا یہ عالم ہے کہ وہ حکومت میں ہونے والی ہر خرابی کی ذمہ داری اب ان اداروں پر ڈال کر خود کو معصوم و مظلوم ثابت کر رہے ہیں۔ جنکی وہ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ پہلے وہ کہتے تھے کہ میں ایک با اختیار وزیرِ اعظم ہوں اور ہر قول و فعل کا ذمہ دار ہوں۔ اب وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے پاس توکوئی اختیار تھا ہی نہیں۔ تو پھر آپ کیوں حکومت سے چمٹے رہے یا اب حکومت لینے کے لیے کیوں ہر غیر قانونی اور غیر آئینی راستہ اختیار کر رہے ہیں اور خو د کو ہر قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ کیا یہی ہے وہ آپ کی ریاست ِ مدینہ جو آپ بنانا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر خالد جاوید جان ایک ترقی پسند سماجی کارکن اور شاعر ہیں۔ وہ مشہور زمانہ نظم ’ میں باغی ہوں ‘ کے مصنف ہیں۔