گلگت بلتستان آئینی دھارے میں شامل نہیں اور یہاں غربت کے اعشاریے فراوانی سے دستیاب ہیں جبکہ دوسرے متعدد آئینی علاقوں کو محض غربت کے اعشاریوں کی بنیاد پر نان کسٹم موبائلز کے علاوہ نان کسٹم گاڑیوں کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کے لیے رابطہ اور رسائی ہمیشہ سے ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ مالی طور پر یہ خطہ وفاق کی گرانٹ ان ایڈ پر انحصار کرتا ہے کیونکہ آئینی طور پر یہ وفاق کا حصہ نہیں ہے اسی لیے بجٹ کے حوالے سے بھی کوئی طے شدہ طریقہ کار متعین نہیں ہے۔ گلگت بلتستان نیشنل فنانس کمیشن، مشترکہ مفادات کونسل، نیشنل ایجوکیشن کنسورشیم اور یونیورسل سروس فنڈ جیسے وفاقی فورمز کا بھی حصہ نہیں جو کہ اضافی طور پر مختلف خصوصی پروجیکٹس کے لیے وسیع فنڈنگ اور ایڈ کا ایک ذریعہ ہے۔
ایک مربوط بجٹ کے نظام اور کنیکٹوٹی کے مسائل اور عدم رسائی کی وجہ سے یہ خطہ ترقی اور گروتھ حاصل کرنے کے لیے ابھی تک جدوجہد کر رہا ہے۔ گلگت بلتستان کو کئی اہم مسائل کا سامنا ہے جیسا کہ قابل کاشت اراضی جو کہ کل رقبے کا محض 1.65 فیصد حصہ بنتی ہے، واحد فصل کا علاقہ ہے۔ پسماندہ آبادی، قدرتی آفات کا شکار دور دراز علاقے، انتہائی شدید موسمی حالات، توانائی کا بحران، پاور کی عدم فراہمی اور شہری علاقوں میں بھی شدید ترین لوڈ شیڈنگ، ٹیکنیکل اور پیشہ ورانہ تعلیم کی کمی، نجی شعبے کا محدود وجود، بنیادی ڈھانچے اور مواصلاتی سہولیات کی کمی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
خطے کے مخصوص جغرافیائی حالات اور مسائل کو بجا طور پر تسلیم کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے پچھلی دو دہائیوں کے دوران ترجیحی بنیادوں پر پالیسیاں اور اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں قابل ذکر طور پر یہاں کے عوام کے لیے گندم پر سبسڈی کے علاوہ تمام براہ راست وفاقی ٹیکسوں سے علاقے کو ٹیکس استثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ان اقدامات سے یہاں کے لوگوں کو ترقی اور بنیادی سماجی و اقتصادی حقوق تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے بہت مدد ملی ہے۔
سلیمان ولی، جو ترقیاتی شعبے سے منسلک ہیں، نے بتایا کہ ٹیلی مواصلات اور ٹیلی کام سیکٹر کی بات کی جائے تو خطے میں ایک حکومتی ادارہ سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن SCO ایک بڑے ٹیلی کام آپریٹر کی شکل میں گلگت بلتستان کے عوام کو ٹیکس فری سیلولر اور انٹرنیٹ خدمات فراہم کر رہا ہے۔ اگرچہ SCO کے نیٹ ورک پر دباؤ، زیادہ یوزر اور دیگر وجوہات کی وجہ سے سروسز میں تسلسل نظر نہیں آتا۔ لوگوں اور صارفین کی جانب سے اکثر و بیش تر ادارے کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بنا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود خطے کے طول و عرض میں سرکاری ادارہ SCO کا وجود کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں موجود دیگر سرکردہ ٹیلی کام آپریٹرز کا گلگت بلتستان میں محدود وجود رکھنے کے علاوہ خطے کے لیے فور-جی نیلامی میں شامل ہو کر لائسنس حاصل کرنے کے باوجود اپنے آپریشنز کو گلگت بلتستان کے تمام دور دراز علاقوں تک بڑھانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
لہٰذا ان حالات میں حال ہی میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے کی جانب سے موبائل رجسٹر کرنے کے DRIBS سسٹم کو یکم ستمبر سے گلگت بلتستان تک توسیع دینے کے تازہ ترین فیصلے نے علاقے کے باشندوں اور یوتھ کو انتہائی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس حوالے سے پہلے ہی مقامی سوشل میڈیا پر اس مجوزہ فیصلے کے خلاف تحفظات اور ناراضگی کا اظہار شروع ہوا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو وفاقی ٹیکسوں کے نفاذ پر پہلے کی طرح عوام کا رد عمل اور غم و غصہ پھر سے وسیع پیمانے پر سر اٹھا سکتا ہے۔ جیسا کہ کسٹم ایکٹ، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ، فیڈرل سیلز ٹیکس ایکٹ، انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 اور فیڈرل فنانس بل گلگت بلتستان میں لاگو نہیں ہے اور خاص طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے براہ راست وصولی کی کسی بھی کوشش کی ماضی میں سخت مزاحمت کی گئی ہے۔
اس کی ایک مثال جب ایک موقع پر حکومت نے انکم ٹیکس جمع کرنا شروع کیا تو اسے زبردست احتجاج کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے امن و امان کے حوالے سے بھی صورت حال پیدا ہو گئی اور بالآخر وفاقی حکومت نے 4 جنوری 2018 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے ان لینڈ ریونیو کو تمام ٹیکسوں کی وصولی سے روک دیا۔ اسی طرح گندم کی سبسڈی، انکم ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کے معاملے پر مظاہروں اور دھرنوں جیسی مثالوں نے عوام کو بیدار کیا ہے جبکہ اس موقع پر انڈین میڈیا نے بھی پاکستان کی جانب سے خطے کو دبانے کے حربوں کا نام دیا تھا۔
بہرحال بات پی ٹی اے کے حالیہ نئے فیصلے کی ہو رہی ہے تو اس حوالے سے پہلے ہی ذکر کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں کنیکٹوٹی اور ٹیلی مواصلات کا مسئلہ اہم ہے۔ خاص طور پر یہاں کے نوجوانوں اور طلبہ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھانا شروع کر رکھا ہے اور ایسے موقع پر پی ٹی اے کا یہ اقدام ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اور کم قوت خرید رکھنے والے سٹوڈنٹس کو سمارٹ فون خریدنے سے محروم رکھنے کے مترادف ہوگا جو ان کے فری لانس اور آن لائن کاروبار کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گلگت بلتستان میں صرف ایک چھوٹی سی آبادی کے پاس سمارٹ فون تک رسائی ہے اور ان نان رجسٹرڈ فونز سے وصول شدہ رقم کسی بھی طرح سرکاری خزانے کے لیے اہم نہیں ہو سکتی۔
عبدالمنان گلگت بلتستان کے شہری ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ماضی میں بھی وفاق نے بحیثیت ایک ریاست خطے کو متعدد امور پر استثنیٰ دیا ہے اور ٹیکس وغیرہ کے حوالے سے رعایتی نقطہ نظر کو برقرار رکھا ہے۔ مثال کے طور پر وفاقی حکومت نے 23 جولائی 2018 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے چترال، دیر، سوات وغیرہ کو تمام سیلز ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا تھا جس میں سیکشن 13 کے تحت قابل وصول ٹیکس شامل ہے۔ وفاقی حکومت نے فاٹا کو آئین کا حصہ بنانے کے بعد فاٹا اور پاٹا کو بھی سیلز ٹیکس آرڈیننس 1990 کے تحت سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا ہے۔ اسی تناظر میں وقت اور حالات کی نزاکت کا یہ تقاضا ہے کہ وفاق گلگت بلتستان کے ساتھ بھی یہی طریقہ کار اپنائے۔
قانون دان سلیم احمد کہتے ہیں کہ DRIBS کے سسٹم کو گلگت بلتستان تک وسعت دینے کے فیصلے کو مؤخر کرنا ہی پی ٹی اے کا دانشمندانہ اقدام تصور کیا جائے گا۔ بصورت دیگر اس مجوزہ اقدام کے بعد یہاں کے عوام کا ردعمل صورت حال کو غیر یقینی بنانے کا موجب بن سکتا ہے۔