انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی سے قرآن کریم کی خدمت

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی سے قرآن کریم کی خدمت
جب سے ڈیجیٹل دور وجود میں آیا ہے، دینی تعلیمات کی تبلیغ اور اشاعت کا طریقہ بھی کافی حد تک تبدیل ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ قرآن کریم اب ڈیجیٹل فارمیٹس میں بھی باآسانی دستیاب ہے۔ یہ ضروری بھی تھا کہ جس رفتار سے انفارمیشن ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، قرآن کریم کی خدمت کے لیے بھی ان ٹیکنالوجیز کو استعمال کیا جا تا اور ان ٹیکنالوجیز کے مزید مفید استعمال کے لیے تحقیق اورڈیویلپمنٹ جاری رکھی جاتی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں مختلف علمی سطح کے لوگوں تک دینی علوم کی ترسیل اور ابلاغ کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے کیونکہ یہ علم کی منتقلی کو آسان بنانے اور پیچیدگیوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ طالب علم کے ارتکاز کو بڑھانے کا بھی ایک طریقہ ہے۔ ان میں سمعی اور بصری احساسات بھی شامل ہوتے ہیں جبکہ انٹرنیٹ کے ذریعے اس مواد کو کہیں منتقل کرنا بھی آسانی سے ممکن ہے۔ علاوہ ازیں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جگہ، وقت اور اخراجات کو بھی خاطر خواہ حد تک کم کر دیا ہے۔

ماضی میں ایسے کام کے لیے اداروں کی ضرورت پڑتی تھی مگر اب فرد واحد یا چند افراد کی کوشش سے ایسا ممکن ہو رہا ہے؛ چنانچہ یہ قابل قدر کوشش داد اور پذیرائی کی حقدار قرار پاتی ہے۔ علم وفن کے میدان میں کام کرنے کےلئے ہمارے ہاں بہت سے ادارے بنائے گئے۔ ان میں کئی ایسے بھی ہیں جو واقعی اچھا کام کر رہے ہیں اور لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں جیسے مقتدرہ قومی زبان اور اردو ڈکشنری بورڈ ، جنہوں نے اردو کے مختلف سافٹ ویئر ز ڈیویلپ کرنے کےلئے اہم کام کئے۔ مگر جو کام اداروں کو کرنے چاہئیں وہی کام اگر کوئی فرد کرلے تو ہمیں فراخ دلی کے ساتھ اسے شاباش بھی دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر کوئی فرد ایسا کرتا ہے تو وہ اپنی محبت اور لگن ہی کی وجہ سے کرتا ہے۔ اس کے پاس اداروں جیسے مالی اور افرادی وسائل اور سہولیات تو نہیں ہوتیں مگراس کے اندر بے لوث جذبہ اور کام کی لگن ضرور ہوتی ہے۔

لاہور کے حسن رشید نے ایک ایسا ہی بڑا کام کیا ہے جس پر وہ واقعی تحسین کے حقدار ہیں۔ انہوں نے قرآن کریم کی قدیم اور جدید خطاطی کو محفوظ کرنے کےلئے ligature-based سافٹ ویئر تیار کیا ہے جس کے دو فائدے ہیں: ایک یہ کہ قرآن کریم کا ہر خط محفوظ ہو جائے گا دوسرا یہ کہ اس طرح قرآن کی چھپائی میں ذرا سی بھی غلطی کا احتمال نہیں رہے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت میں زبر زَیر یا تلفظ کی معمولی غلطی سے بھی اصل معنی تبدیل ہو جانے کا امکان ہوتا ہے، مگر اس سافٹ ویئر نے یہ احتمال ختم کردیا ہے۔ یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ اس سافٹ ویئر میں کسی قسم کی قطع و برید نہیں کی جاسکتی،یعنی تحریف کا اندیشہ نہیں۔ ایک بہت بڑی سہولت یہ ہوگئی ہے کہ اب قرآن پاک چند گھنٹوں میں بھی چھاپا جاسکے گا۔ اب تک ایک اچھے خطاط کو پورے قرآن کی خطاطی میں کئی برس لگ جاتے تھے مگراس سافٹ وئیر نے اس کام میں شاندار جدت، آسانی اور خوبی پیدا کر دی ہے۔

اس کام میں سافٹ انجینئرز کے علاوہ پاکستان کے نامور خطاط انور نفیس رقم کی مشاورت بھی شامل رہی۔اس سافٹ وئیر میں یہ گنجائش بھی موجود ہے کہ اس کی مدد سے آپ پاکستان کی کسی بھی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کر سکتے ہیں۔نفیس رقم کا شمار دنیا کے نامور خطاط میں ہوتا تھا۔ انہوں نے نہ صرف خطاطی کے بیش قدر نمونے پیش کئے بلکہ اپنا ایک خط بھی ایجاد کیا جو نستعلیق اور نسخ کے امتزاج پر مشتمل ہے۔نفیس رقم اپنی خواہش کے باوجود قرآن پاک کی مکمل صورت میں خطاطی نہیں کرسکے تھے۔ حسن رشید نے نفیس رقم صاحب کی اس دلی خواہش کو پورا کرنے کا خواب کچھ انوکھے ڈھنگ سے دیکھا اور پھر اس کی عملی صورت بھی پیش کردی۔ کہتے ہیں کہ خطاط صوفی منش لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے مقام کا تعین نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کا موازنہ ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر نامور خطاط کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔جناب نفیس رقم نے خطاطی کی دنیا میں اپنا جو مقام پیدا کیا وہ ان کی گہری بصیرت اور ریاضت کے باعث ہے۔ اس سافٹ ویئرسے ان کے اس شاندار ہنر کو بھی دنیا میں فروغ دیا جاسکے گا۔

یہ سافٹ ویئر کتابت کے حسن کو برقرار رکھتے ہوئے Ligature Base پر بنایا گیا، جیسا کہ الرحمن میں تین Ligature ا-لر-حمن ہیں، اس کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ لفظوں کے جوڑے، جن کی نفیس رقم نے خطاطی کی تھی، اعراب سمیت تیار ہوئے۔ کل ملا کر پندرہ ہزار لفظوں کے جوڑے تیار ہوئے۔ ان جوڑوں کی ری ٹچنگ اور فونٹ میکنگ کی گئی لیکن یہ تمام ضرورت پوری نہیں کرتا تھا جیسا کہ حدیث اور عربی کی دیگر عبارات کے کئی الفاظ کو نہیں لکھ پاتا تھا، پھر اس کو Characterپر ڈیزائن کیا گیا تاکہ صرف قرآن کریم اور عربی عبارت کی تمام ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ اس سافٹ ویئر کو اب قرآن کریم کی اشاعت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب دنیا کے پاس ایک پلیٹ فارم ہےکہ اگر کوئی قرآن کریم کی کتابت کمپیوٹرپر محفوظ کرنا چاہے اور کسی بھی فورم کا انتخاب کرلے تو اس طریقہ سے ایک ماڈل تیار مل جائے گا۔ اس سافٹ وئیر کو قرآن بورڈ کے بڑے بڑے پروف ریڈرز  نے بھی پڑھا اور غلطیوں سے پاک قرار پایا۔ یوں قرآن پاک کے مختلف تراجم جلد منظر عام پر آنا شروع ہوگئے اور جو کام برسوں پر محیط تھا وہ چند دنوں میں مکمل ہو نے لگا۔ اس سافٹ ویئر میں خطاطی کے تین مختلف انداز استعمال ہوئے، خط نفیس رقم ،خط دہلوی اور حافظ عبدالرحمان نے بھی کچھ خطاطی کی ہے۔ قرآن مجید کی چھپائی کے عمل کو اغلاط سے پاک اور آسان بنانے والی اس کوشش کو مسلم اُمہ اور پوری دنیا میں اہمیت حاصل ہے۔ آج دنیا بھر میں مسلم شناخت اور پیغام رشد و ہدایت کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس دریافت سے یہ کام تیزی کے ساتھ ممکن ہے۔

اس طرح جدید ٹیکنالوجی کو قرآن مجید، احادیث اور دینی تعلیمات کی ترویج کےلئے استعمال کرنے والے سافٹ ویئر انجینئر زاہد حسین چھیپا کا تیار کردہ سافٹ ویئر”Islam360“ بھی قابلِ قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس سافٹ ویئر کے ذریعے قرآن کی آیت اور احادیثِ مبارکہ کی تلاش آسان بنادی گئی ہے۔ اس سافٹ ویئر کے ذریعے آپ انگریزی، اردو اورعربی میں مطلوبہ لفظ لکھ کر تلاش کرسکتے ہیں۔ الفاظ بڑے کرنے کی آسانی بھی موجود ہے اور آئی فون، آئی پیڈ اور اینڈرائیڈ ڈیوائسز پر یہ سافٹ ویئر چل سکتا ہے۔ اس میں بارہ سے زائد قاری صاحبان کی آواز محفوظ کی گئی ہے۔ سافٹ ویئر میں سرچ کے آپشن کے حوالے سے چار طریقے ہیں انگریزی، اردو، رومن اردو اور عربی اور اگر آپ کوئی آیت دوستوں کو بھیجنا چاہیں تو اس میں شیئر کا آپشن بھی موجود ہے۔ آپ اسے واٹس ایپ، فیس بک یا ٹوئٹر پر بھی شیئر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ قرآن پاک کی تفسیر دیکھ اور سُن سکتے ہیں۔

موبائل ڈیوائسز کی مقبولیت اور اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے پیش نظر بہت سی دیگر انٹرایکٹو اسلامک ایپلی کیشنز بھی سامنے آئی ہیں اور قرآن پاک کے حوالے سے ان ایپلی کیشنز کی وسعت اورخوبیو ں کی وسیع رینج سے صارفین مستفیض ہو رہے ہیں۔ موبائل ڈیوائسز کے لیے اینڈرائیڈ پر مبنی انٹرایکٹو قرآن پاک سافٹ ویئر ایپلی کیشنز بلا شبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وہ بہترین استعمال ہے جس کی اس جدید دور میں غیر معمولی اہمیت ہے۔قرآن کریم اللہ کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کی کتاب ہے اور ہر دور کے لیے ہے؛ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ جس رفتار سے انفارمیشن ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے اسی طرح قرآن کریم کی خدمت کے لیے بھی ان ٹیکنالوجیز کو استعمال کیا جا ئے۔ اس کام میں کس طرح مزید خوبی پیدا کی جاسکتی ہے، آئی ٹی یونیورسٹیز اور آئی ٹی کے تحقیقی اداروں کو اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ترقی کا یہ عمل جاری رکھنا چاہیے۔

2013 میں مدینہ منورہ کی طیبہ انٹرنیشنل یونیورسٹی نے International Confrence on Advances in information Technology for the Holy Quran and its Science کے عنوان سے ایسی ہی ایک قابلِ قدر کوشش کی تھی ، جس میں دنیا بھر سے چوٹی کے مسلم آئی ٹی ایکسپرٹس نے شرکت کی اور اس موضوع میں اپنی تحقیقات پیش کیں۔ کیا پاکستان کی آئی ٹی یونیورسٹیز یا آئی ٹی ڈپارٹمنٹس میں اس حوالے سے کوئی کام ہو رہاہے؟ اس بارے کچھ معلوم نہیں ہو سکا، بہرحال اس موضوع پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجیز کو قرآن و حدیث کی ترویج و اشاعت کے لیے بھر پور انداز سے استعمال کیا جاسکے وہیں ایسے رہنما اصول اور قواعد و ضوابط بھی وضع کئے جاسکیں جن سے یہ کام علمی اور دینی اعتبار سے زیادہ معیاری اور مستند قرار پا سکے اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔