ورلڈ پوٹھوہار میلہ: خطہ پوٹھوہار کی روایات اور کھیلوں کو اجاگر کرنے کا عزم

سرزمین پاکستان میں گذشتہ 20 سالوں میں بیرونی نظریات اور بیانیہ سے مقامی روایات اور ثقافت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ بالخصوص پنجاب کے علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ اور دیگر علاقوں کو قوم پرست جماعتوں کے فعال ہونے کے باعث قدرے کم نقصان ہوا ہے۔

مارکس ازم ہو۔ مذہبی بیانیہ ہو۔ جب تک نظریات دھرتی کی روایات اور ثقافت کے ہم آہنگ نہیں کیے جاتے تب تک اجنبی ہی رہتے ہیں۔ نظریات کے پرچارک کاروں نے نظریات کو ہم آہنگ کیا کرنا تھا۔ کامریڈ، مارکس ازم کا مقامی زبانوں میں ترجمہ یا متبادل لفظ تک نہیں دے سکے ہیں۔ تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ معاشی نظریات کو بھی مذہبی بیانیہ اور مذہب کے مقابل کھڑا کر دیا گیا ہے۔ حکمت عملی سے کام لینے کی بجائے جذبات اور عقیدت سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نوجوانوں کو انقلاب کے نام پر ورغلایا جاتا ہے۔ کوئی مذہب، کوئی نظریہ اور کوئی فلسفہ روایات اور تہذیب و تمدن کی کلنگ نہیں کرتا ہے۔

کارل مارکس ہی کا قول ہے کہ انسان کے سر پر مسائل کا بوجھ ہے اور ہاتھ میں مذہب کی لاٹھی ہے جس کو ٹیک ٹیک کر انسان چل رہا ہے۔ ہمارا فریضہ انسان کی لاٹھی چھیننا نہیں ہے بلکہ انسان کے سر سے مسائل کا بوجھ اتارنا ہے۔ کارل مارکس کی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لال پیلے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ خاص کر پنجاب میں اگر ضرورت ہے کہ کارل مارکس کی بات کرنی ہے تو پھر بلھے شاہ اور فرید کی زبان میں کی جائے۔ اظہار بھی اپنی رہتل بہتل میں کیا جائے گا تو نتائج 100 فیصد آئیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔

پنجاب کی دھرتی مختلف ثقافتی اکائیوں کی سرزمین ہے۔ وفاقی دارلحکومت کے پہلو میں خطہ پوٹھوہار ہے جس کا اپنا پوٹھوہاری کلچر ہے۔ اپنے رسم و رواج ہیں۔ گیت اپنے ہیں۔ بولیاں اپنی ہیں۔ کھیل اپنے ہیں۔ کھلونے اپنے ہیں۔ میلے اپنے ہیں اور ان میلوں کا رنگ اپنا ہے۔

خطہ پوٹھوہار کو صوبہ بنانے کے لئے بھی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ راولپنڈی سے راجہ اعجاز نے تحریک صوبہ پوٹھوہار شروع کر رکھی ہے۔ موصوف تحریک صوبہ پوٹھوہار کے چیئرمین ہیں۔ خوبصورت اور دلچسپ بات ہے کہ راجہ اعجاز نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی ثقافت پر رکھی ہے۔ ان کا نعرہ ہے کہ پوٹھوہار کی ثقافت، ہماری سیاست ہے۔ خود بھی فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ فوک کلچرل پر یقین رکھتے ہیں۔

راجہ اعجاز نے ورلڈ پوٹھوہار میلہ کا اعلان کر رکھا ہے جس میں خطہ پوٹھوہار کی روایات، تہذیب و تمدن اور کھیل و تماشوں کو اجاگر کرنے کا عزم ہے۔ پوٹھوہار کی ثقافت ہی ہماری سیاست ہے۔ خوبصورت تصور ہے۔

سوالوں کے جواب دیتے ہوئے راجہ اعجاز کا کہنا تھا کہ ثقافت کی ترقی سے خطہ میں نہ صرف سیاحت کو فروغ حاصل ہو گا بلکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ سیاست جسے پیچیدہ اور خطرناک کھیل بنا دیا گیا ہے، اس میلے سے نئی نسل کی سیاست میں دلچسپی پیدا ہو گی۔ سیاست پیسے کا کھیل بھی نہیں رہے گا اور چند لوگوں کی سیاست پر جو اجارہ داری ہے اس کا بھی خاتمہ ہو گا۔ بیل دوڑ، نیزہ بازی، اونٹ ریس جیسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی سے زراعت کا اور حیوانات کا شعبہ ترقی کرے گا۔

راجہ اعجاز کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کا کام محض انتخابات میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ سماج کی تعمیر کرنا، سیاسی جماعتوں کا اہم ترین فریضہ ہے۔ راجہ اعجاز عدم برداشت، تشدد، انتہا پسندی اور جنسی درندگی جیسے بڑھتے واقعات کا ذمہ دار بھی سیاسی جماعتوں کو قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سیاسی کارکن جتنے زیادہ فعال اور سیاسی نظریات سے لیس ہوں گے اور ان کی سیاسی تربیت ہو گی۔ سماج اتنا زیادہ پرامن اور جرائم سے پاک ہو گا۔

انہوں نے پیپلزپارٹی کو زیادہ مورد الزام ٹھہرایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی نے قبلہ تبدیل کر لیا ہے اور اپنا اصل فریضہ بھول گئی ہے۔ قومیں اور جو طبقات اپنی اصل زبان، تہذیب، روایات اور ثقافت سے رشتہ توڑ دیتے ہیں، وہ قوموں کی صف سے نکل جاتے ہیں۔ زوال اور بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

راجہ اعجاز نے بھی ورلڈ پوٹھوہار میلے کا اعلان کر کے ترقی، خوشحالی اور عروج کی جانب سفر کی بنیاد رکھی ہے۔ چلنے والے اپنی منزل پر پہنچ ہی جایا کرتے ہیں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔