Get Alerts

نئے صوبے، ریجنل ازم اور صوبہ پوٹھوہار

نئے صوبے، ریجنل ازم اور صوبہ پوٹھوہار
پاکستان میں نئے صوبے بنائے جانے کے مطالبہ میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید تیزی آئی ہے۔ کئی اور ریجن بھی صوبے کی مانگ کرنے لگے ہیں۔ ملکی حالات اور وسائل بھی اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ملک کی ڈویژن نئے سرے سے کی جائے اور ریجن کی بنیاد پر ملکی وفاق بنایا جائے۔

ریجنل ازم سے وفاق پاکستان مضبوط ہوگا اور تمام لسانی اور جغرافیائی اکائیوں اور قومیتوں کو حقوق حاصل ہوں گے۔ ریجنل بنیادوں پر ڈویژن سے گراس روٹ لیول پر ترقی کا پہیہ گھومنے لگے گا۔ اجارہ داریاں اور لوٹ کھوٹ کا سلسلہ بھی بند ہوگا۔ ریجنل حکومتوں کے قیام سے ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں گے تو ملک آگے کی جانب سفر کرے گا۔

ہم نے 72 سال گزار لئے ہیں مگر ابھی تک گھن چکر سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ ایٹمی قوت سمیت معدنیات اور ملکی وسائل کے ہوتے ہوئے ہمارا سفر پیچھے کی جانب ہے۔ غربت عفریت کی طرح انسانوں کو نگل رہی ہے مگر چند لوگ اقتدار کے کھیل میں مگن ہیں۔ جنہیں ملکی سالمیت سمیت عوام کے حالات کار سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ریاست اور حکومتوں کی جانب سے کوئی گریٹ ڈبیٹ نہیں رکھی جاتی ہے مبادہ کے کالے کرتوت سامنے نہ آجائیں۔ برعکس اس کے جب ریجن کے عوام صوبوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو ٹی وی کے پروگراموں میں کہا جاتا ہے کہ نئےصوبوں کے لیے وسائل کی ضرورت ہے اور نیا صوبہ بنا بھی دیا جائے تو کیسے چلایا جائے گا۔

یہی بات عام عوام میں سرایت کرچکی ہے کہ نئے صوبہ کے مالی امور کیسے چلائیں گے۔ گذشتہ روز تحریک صوبہ پوٹھوہار کے چیئرمین اور عوامی فرنٹ پاکستان کے چیف کنوینر راجہ اعجاز کے انٹرویو میں بھی یہ سوال کہ نئے صوبے کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے بار بار پوچھا جاتا رہا ہے۔ راجہ اعجاز نے ریجنل ازم کی بات کی کہ وسائل کی کسی بھی ریجن میں کمی نہیں ہے اور ریاست سے پوچھا جائے کہ موجودہ صورتحال میں ریاست ریجن کو کیسے چلا رہی ہے۔

راجہ اعجاز کا کہنا تھا کہ خطہ پوٹھوہار کی اگر بات کی جائے تو خطہ پوٹھوہار اپنے ثقافتی، لسانی، قومیتی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک الگ اکائی اور شناخت ہے، جو اس امر کی عکاس ہے کہ خطہ پوٹھوہار ایک صوبے اور ریاست کے اپنے اندر تقاضے رکھتا ہے۔ بحیثیت مجموعی خطہ پوٹھوہار غیر اعلانیہ ایک صوبہ ہے۔

وسائل کی بات کی جائے تو ملک کے کل وسائل کا 26 فیصد خطہ پوٹھوہار پورا کر رہا ہے۔ صوبہ چلانے کے لئے اور خطہ کی خوشحالی و ترقی کے لئے 26 فیصد ہی کافی ہے۔ پاکستان کے اندر اگلے پانچ سو سال گزارنے کے لئے وافر وسائل موجود ہیں، مسئلہ صرف حقیقی عوامی حکومت کے قیام کا ہے، جو ملکی وسائل کو مناسب طریقے سے بروئے کار لانے کی اہل ہو۔ ڈنگ ٹپاو پالیسوں اور غیر سیاسی اور غیرتربیت لوگوں کے باعث ملک قرضوں کے بوجھ تلے آچکا ہے اور آگے بھی اگر صورتحال یوں ہی رہی تو امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ کوئی بہتری آسکے۔

ریجنل ازم کی بنیاد پر ملکی ڈویژن سے بننے والے صوبے آج سے بہت زیادہ بہتر طریقے سے چل سکتے ہیں اور ریجن کے عوام میں بھرپور صلاحیت ہے۔ ہر ریجن بااختیار ہو تو بہتر انداز میں کاروبار حکومت چلا سکے گا۔ وسائل کی بالکل کمی نہیں ہے۔ وسائل پر چند طبقات سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ امور مملکت میں عوام کا عمل دخل ہی نہیں ہے۔ وسائل کی بندربانٹ اور خردبرد ہوتی ہے۔ مس مینجمنٹ ہے۔ نئے صوبوں کے قیام سے انتظامی امور میں بہتری آئے گی اور وسائل کی بہتر طریقے سے مینجمنٹ کی جاسکے گی جس سے وسائل کی تقیسم اور مصرف بہتر ہوگا۔ بے روزگاری، مہنگائی اور غربت ختم ہوگی اور عوام کو حق حکمرانی بھی ملے گا۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔