راناثنااللہ کی اہلیہ نبیلہ رانا کو دھمکی آمیز کالز کرنے والا کون؟

راناثنااللہ کی اہلیہ نبیلہ رانا نے کہا ہے کہ مجھے دھمکی آمیز کالیں ریسیو ہو رہی تھیں کہ چپ ہو جاؤ، اگر میں چپ ہو جاتی تو میرے شوہر کو جھوٹا ثابت کر دیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے کہا گیا کہ بچوں کو باہر بھیج دیں زیادہ بہادر نہ بنیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گھر باہر پہرا لگایا گیا جس کی وجہ سے میرے نوکر چھوڑ کر چلے گئے۔

راناثنااللہ کی اہلیہ  کا کہنا تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ میرے بچوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے اس لیے فیصل آباد بھی جانا چھوڑ دیا تھا۔

اس سے قبل وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیر قانون اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد تاثر دیا گیا کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے، کیس ختم ہو گیا ہے اور وہ بری ہو گئے ہیں مگر ’میں بتانا چاہتا ہوں کہ رانا ثنا اللہ اب بھی ملزم ہیں۔‘


’میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ رانا ثنا اللہ اب بھی ملزم ہیں اور لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کے حوالے سے آرڈر جاری نہیں کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا میڈیا پر کہا گیا کہ کدھر ہے ویڈیو، میں بتا دوں کہ ویڈیو کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ رانا ثناء اللہ کے مختلف پوز والی ویڈیوز ہوں، ویڈیو اور فوٹیج میں فرق ہوتا ہے اور ہم نے تین ہفتے تک رانا ثناء اللہ کی نقل و حرکت کو چیک کیا۔


رانا ثناء اللہ سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ رانا ثناء کے اثاثے کیسے بڑھے، رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ آمدنی کا ذریعہ پراپرٹی اور وکالت ہے لیکن آج تک ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پریس کانفرنس کے دوران 17 دسمبر کو تمام ثبوت پیش کیے، جب میں کہتا ہوں کہ جان اللہ کو دینی ہے تو اس کا مطلب وہ حلف ہے جو ہم اٹھاتے ہیں۔

 شہریار آفریدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کل ضمانتوں کا موسم ہے، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں جس پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔ 

رانا ثنااللہ کے معاملے میں کب کیا ہوا؟


پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔

اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔ ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔ علاوہ ازیں رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 20 ستمبر کو عدالت نے دیگر 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی لیکن رانا ثنااللہ کی رہائی کو مسترد کردیا۔

بعد ازاں 6 نومبر کو انہوں نے نئے موقف کے ساتھ انسداد منشیات کی عدالت سے ضمانت کے لیے ایک مرتبہ پھر رجوع کیا تاہم 9 نومبر کو اس درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکے کے عوض ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔