منی بجٹ: وہ دیکھو ترقی، دیکھ لی؟ شاباش!

منی بجٹ: وہ دیکھو ترقی، دیکھ لی؟ شاباش!
گوگل پر growth and prosperity in Pakistan سرچ کرنے سے بیشتر لنک سی پیک کی برکتیں بتاتے نظر آئے۔ 2018 کی خبر کہ جس میں 'سینیٹ کے چیئرمین سنجرانی صاحب ان کے قومی دن پر چینی امبیسی میں پہنچے' کو پڑھنے کے بعد میرے جذبات بھی ابھرنا شروع ہو گئے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سی پیک کی اصل پر سوال نہیں ہے، بلکہ اس پروجیکٹ کو لے کر ہماری ان ڈھیروں غلط فہمیوں پر اعتراض ہے جو ہم نے پال رکھی ہیں۔ ہمیں لگنے لگا ہے کہ سی پیک ہی ہماری اس نسل اور آنے والوں کے کل کی کل ضمانت ہے۔ حالانکہ مستریوں، مزدوروں اور سکیورٹی گارڈز کے علاوہ سی پیک میں اگر کوئی غلطی سے لگ بھی گیا ہے تو اس کو مبارک ہو۔ ویسے میرے لئے اس پروجیکٹ کو ہمارے سر پر کافی پہلے سے ہی بٹھا دینا بالکل ویسا ہی ہے جیسے جمہوریت ہمارے ہاں آج بھی 'گواچی مج' کی طرح ہے، مگر عظمت میں سب سے عظیم۔

جمہوریت سے ہم برصغیر کے عوام کو اب تک ملا ہی کیا ہے؟

جمہوریت ہماری زندگیوں میں بے وقعت سا تجربہ بن کے رہ گئی ہے جس کا حاصل کچھ نہیں مگر گلے میں پڑا ڈھول بجانا بھی ہے۔ جس جمہوریت کی دن رات عظمتیں گنوائی جاتی ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ ہم آج زندہ بھی شاید جمہوریت ہی کی وجہ سے ہیں۔ یہی ایک آخری شے ہے جس کے بعد ہماری روحیں قبض ہو جانی ہیں۔ اس کے بعد بس اب قیامت ہی وقوع پذیر ہونی ہے۔ دوسری جانب اس سوال کی اجازت بھی تو ملے کہ سکہ رائج الوقت جمہوریت سے ہم برصغیر کے عوام کو اب تک ملا ہی کیا ہے؟ اس سوال سے ہرگز ماضی کی آمریتوں کی حوصلہ افزائی مقصود نہیں ہے، بلکہ مقصد اس بات کو مزید کھول کر پیش کرنا ہے کہ اس خطے کے عوام تو تین چار نسلوں سے رو ہی رہے ہیں، پھر کوئی بھی آزمودہ چیز ہمارے لئے آخری آپشن کیسے ہو گئی؟



جمہوریت ہی کے لئے اس قدر محبت کیوں؟

کیا واقعی یہ ایک بہت خوشنما چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ یاد رہے کہ یہاں جمہوریت کے آئیڈیل پر بحث نہیں ہے مگر جو سسٹم کہ جس کو ریپ کر کے کنٹرول کا ایک زبردست نظام ہم پر تھوپا گیا، اس کے اب تک قائم رہنے اور ان ناانصافیوں سے بھرپور بن جانے والی اس بلا پر بحث ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ قابض اور جابر قوتوں کو صرف جمہوریت یا صرف آمریت ہی کا انتخاب پسند ہے۔ نہیں، مگر ان کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے۔ قوموں کے وجود کے بعد قوم کے تحفظ اور خود مختاری ہی تو آئیڈیل ازم سے قوموں کو ریئل ازم کی جانب کھینچ لاتی ہے۔ چین پاکستان کا دوست نہیں بلکہ اپنے مفادات کا زبردست محافظ ہے، اس کو اپنا تحفظ بھی کرنا ہے۔ ہماری جگہ چین کا ہمسایہ آج کا دشمن ملک بھی ہوتا تو وہ اس کا دوست ہی ہوتا۔

کیا امریکہ اور مغربی جمہوریتوں نے غریب ممالک پر قبضہ کر کے ان کا استحصال نہیں کیا؟

جہاں تک اس تضاد کا تعلق ہے کہ مغرب تیسری دنیا کے ممالک میں کنٹرول کا نظام چاہتا ہے تو یہ بالکل درست ہے اور اس ضمن میں جمہوریت اس کا ایک ٹول ہے۔ جس طرح دنیا نے باقی چیزوں میں ترقی کی ہے تو کنٹرول کے طریقوں نے بھی ترقی پائی ہے۔ کالونی سے جمہوری بنانے کے سفر پر یہ قافلہ رواں دواں ہے۔ اس بات میں فرق نہ کرنا اور تجزیے کے لفافے کو تہہ لگا دینا کافی نہیں ہے کہ پہلی اور دوسری دنیا کے ترقی یافتہ اور تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں صرف ایک ہی فرق ہے کہ ایک طرح کے ممالک خوشحال اور دوسری طرح کے لوگ جمہوری ہوتے ہوئے بھی بدحال ہیں۔ ہمیں سوؤیت یونین کی ہزار خرابیاں بتاتے وقت یہ کیسے بھول جاتا ہے کہ امریکی بلاک اور مغربی جمہوریتوں نے غریب اور کمزور ممالک پر قبضے کر کے صدیوں ان کا سرمایہ کھایا اور استحصال کی ہر اس آخری حد کو چھو کر کامیابی پائی ہے؟ جمہوریت اور کامیاب جمہوری تجربوں کی تعریف کرتے ہوئے ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے۔



اسد عمر نے بجٹ پیش کرتے ہوئے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ غریب عوام کے معاشی حالات کس خراب صورتحال کا مزید شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں؟

پاکستان میں جس جمہوریت کو بچانے کی ہمارے بڑے بات کرتے ہیں، یہ دراصل اس استحصالی نظام کو بچانے کی ضد ہے جس پر ہم بھی خوش ہیں کہ چلو معاملہ سنبھلا تو ہوا ہے نا۔ کیا ہوا کہ اسد عمر نے بجٹ پیش کرتے ہوئے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ غریب عوام کے معاشی حالات کس خراب صورتحال کا مزید شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں؟ ہاں مگر ملک میں سرمایہ لگانے والے ایکسپورٹ سے منسلک بھائیوں کا خیال ستاتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی پیداوار کو بڑھتا کسے نہیں دیکھنا؟ مگر اس کھیل تماشے میں غریب کی زندگی آج تک انیس سے بیس نہیں ہوئی۔ بیروزگاری میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا رہا، کیا وہ سلسلہ اب ٹھیک ہو جائے گا؟ اسد عمر یا ان کا کوئی داعی بےروزگار نوجوانوں کے ان سوالوں کے جواب رکھتا ہے تو سوشل میڈیا کا دور ہے، کہیں بھی جواب لکھ دیں۔ وہی آئیں بائیں شائیں نہیں، ٹھوس جواب۔ اب تک جتنے بھی بجٹ پیش ہوئے اس مسئلے کا ذکر تو ہوا مگر برائے نام۔ میرا خیال ہے کہ اس میں اسد عمر یا کسی وزیر خزانہ کی غلطی نہیں ہے بلکہ یہ وہ بنیادی سٹرکچرل غلطی ہے جس کو ہم بہت سمجھ کر بھی حل نہیں کر سکتے۔

کیا جرمنی کی ترقی کو ہم دنیا بھر کے لئے ماڈل مان سکتے ہیں؟

جرمنی برلن وال گرنے کے بعد ایسٹ کے لوگوں کو بہت سی نوکریاں دینے کا دعویدار ہے۔ مگر کیا یہ سچ نہیں کہ جرمنی سمیت مغربی بیشتر طاقتوں میں صحت، تعلیم، اور بیروزگار، معاشی لحاظ سے کمزور شہریوں کو حکومتی وظیفے کے نظام نے سرمایہ داری بےتکی سی دوڑ کی پیدا کردہ الجھن کو روک رکھا ہے؟ یہ الجھن جرمنی کے امیر ترین طبقے، جو کہ پانچ فیصد بھی نہیں، اور مڈل و لؤر مڈل کلاس کے مابین اپنے اسی امپیکٹ کے ساتھ موجود ہے۔ ہاں ریاست نے جس طرز کو اپنا لیا ہے، اسی کو گروتھ کا ضامن سمجھ لینا اب وقت کی ضرورت بھی ہے اور اس کے علاوہ کوئی ظاہری ممکنہ فارمولا زیر نظر نہیں۔ ہاں ہمارے لوگ سکینڈینیویا ماڈل کی مثال دیتے ہوئے اس آرگومنٹ کو اس بات سے جوڑنا زیادہ پسند کرتے ہیں کہ یہ بھی سرمایہ داری نظام کی ہی دین ہے۔

ہمیں اپنی ہی خرابی کا خیال خود کیوں نہیں ہے؟

جہاں تک Sustainable development کے سبق کی بات ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہمیں اپنی فکر آپ ہونی چاہیے۔ مگر انہی اقوام کا بنایا وہ نظام جب اس پروجیکٹ کو انہی ممالک میں متعارف کروائے کہ جن کا استحصال وہی لوگ کر چکے، یا جن کا ہونا ابھی باقی ہے، تو سمجھ لیجئے کہ کچھ نہیں، سب ہی غلط ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ این جی اوز کا ہونا برا نہیں، مگر ان کے ہونے پر سوال، کہ ان کی ضرورت ہی کب پڑتی ہے، اہم ہے۔ ہمیں اپنی ہی خرابی کا خیال خود کیوں نہیں ہے، ان کو کیوں یہ خیال اس قدر ستا رہا ہے؟



ریاست کا مل مالکان کے لئے دکھ پسے ہوئے مزدور کی روٹی مہنگی ہونے سے زیادہ اہم ہے

اس کو اگنور نہیں کیا جا سکتا کہ سو خرابیوں کا سبب یہ نظام ترمیم یا تبدیلی کی ضرورت رکھتا ہے، یہ سوچنا کہ ہمیں بدلنے کی ضرورت نہیں انتہائی بھونڈی بات ہو سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس بوسیدہ سسٹم جس کو ہم نے جمہوریت کا نام دیا ہوا ہے، کے بعد زندگی کا تصور ختم ہو جاتا ہے؟ وہ نظام کہ جو ہمارے لئے وبال جان بنا ہوا ہے، وہ نظام جو آٹے کی مل کے مالک پر تو مہربان ہے لیکن اس مل میں کام کرنے والے مزدوروں کی لیبر ویج ریوائز کرنا گناہ سمجھتا ہے، کیا پاکستان میں ایسے مزدوروں کا کوئی ویج بورڈ ہے بھی؟ اور یہ تو وہ لوگ ہیں جو کسی کھاتے میں آتے ہیں۔ نان فارمل انکم والے مستری مزدور تو مزید برے حالوں میں جی رہے ہیں۔ ریاست کا مل مالکان کے لئے دکھ پسے ہوئے مزدور کی روٹی مہنگی ہونے سے زیادہ اہم ہے۔ اس طاقت اور کنٹرول سے اب تک باہر نہ نکلنے والا نظام ہمیں کیا سماجی انصاف فراہم کر سکتا ہے؟

دس ملوں کے مالک کو جب اپنی طاقت کو ٹیک دینا ہوتا ہے تو وہ فلاحی ادارہ قائم کر لیتا ہے، یا پھر میڈیا ہاؤس

ہمیں صرف اس بات کا مطلب بتا دیں کہ بھارت، پاکستان، اور اس خطے میں، نیز افریقی ممالک میں، ترقی کا مطلب عام آدمی کے لئے ویسا کیوں نہیں ہے کہ جیسا ان کے لئے ہے کہ جن چند کے قبضے میں ملک کی بیشتر دولت اور وسائل ہیں؟ آپ ہی کہیے، اس میں مزید کس Sustainability کی گنجائش ڈھونڈی جائے؟ 10 ملوں کے مالک کو جب اپنی طاقت کو ٹیک دینا ہوتا ہے تو وہ فلاحی ادارہ قائم کر لیتا ہے، یا پھر میڈیا ہاؤس۔ فلاحی ادارہ بنانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ سیٹھ کو غریبوں کا بہت درد ستاتا ہے۔ بلکہ یہ استحصال کے تأثر کو کم کرنے کا ایک مفید طریقہ ہے۔ اس کے بعد سیٹھ ادارے میں کام کرنے والوں کا جیسے مرضی چاہے استحصال کرے، کیا فرق پڑتا ہے؟ یہی جذبہ خیر سگالی بڑی قومیں ان چھوٹی قوموں کے لئے رکھتی ہیں جن کو انہوں نے ہی پہلے تو خوب نوچا ہوتا ہے، پھر ان میں سے چند کی امداد ریکارڈ کرنے پہنچ جانا دستور ہو گیا ہے۔ ننگے سیاہ فام بچوں کے منہ میں جاتی مکھیاں، ہڈیوں سے بھرے جسم دکھاتا بی بی سی سسٹینیبل ڈویلپمنٹ کا چورن بیچتا ہے تو ہم اس کو پروفیشنل جرنلزم کہتے ہیں، اور ننگے سیاہ فام بچوں میں گھومتی چٹی چمڑی کو پیشہ ور صحافی۔

ایک بلاک سے دوسرے کی جانب بڑھتے ہوئے ہم ایک کنفیوژن کا شکار ہیں کہ چین ہمیں بدحالی دے گا یا خوشحالی

ہمارے اپنے رویے بھی تو قابل دید ہیں۔ ہمارا میڈیا آج کل اس بات پر گہری سوچ میں مبتلا ہے کہ جیسے امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکی پروگراموں کے پاکستان میں بیچنے پر ہمیں ڈالر دیتا تھا، چین ہمارے اس ہنر پر وہی دام دے گا یا نہیں۔ اس کو ہم اپنی زبان میں ڈویلپمنٹ جرنلزم کہتے ہیں۔ جس سے ہم عوام کے مفادات کو بہانہ بناتے ہوئے باہر کی کرنسی سے اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں۔

ہمیں اس بات سے بھی قطعاً غرض نہیں ہے کہ ایک بلاک سے دوسرے کی جانب بڑھتے ہوئے ایک کنفیوژن کا شکار ہیں کہ چین ہمیں بدحالی دے گا یا خوشحالی، بس کچھ تو دے گا۔ سی پیک ہمیں نوکریاں دے گا یا چین کو عالمی منڈیوں تک آسان ترین رسائی، اس میں سے کون سی بات دوسری پر غالب ہے ہمیں یہ بھی نہیں جاننا۔ بس اتنا جاننا کافی ہے کہ انڈسٹری لگ رہی ہے، ملک خوشحال ہو رہا ہے۔ وہ دیکھو ترقی۔ دیکھ لی؟ شاباش!

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔