وطن عزیز میں اس وقت سیاسی حلقوں میں ایک بحث بہت شدت سے جاری ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام حکومت ناکام ہو چکا ہے اور یہ نظام حکومت مکمل طور پر عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے، لہذا اس نظام کا بوریا بستر سمیٹ دینا چاہیے اور وطن عزیز میں ایک دوسرا نظام حکومت صدارتی طرز حکومت نافذ کر دینا چاہیے۔
سماجی روابط اور برقی اور اشاعتی ذرائع ابلاغ میں یہ بحث شدت پکڑ چکی ہے اور دونوں نظاموں یعنی پارلیمانی نظام حکومت اور صدارتی طرز حکومت کے حامی و مخالفین اپنی اپنی بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں ، صدارتی نظام کے مخالفین جو اس نظام کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ نظام چار بار پاکستان میں چار عسکری حکمرانوں نے زبردستی نافذ کیا ،ایوب خان، یحیی خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف بری طرح ناکام رہے، یہ ایک آمرانہ انداز حکمرانی ہے، اب پاکستان میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
بدقسمتی سے ہم آندھی محبت اور آندھی نفرت میں مبتلا ہجوم ہیں، حمایت اور مخالفت میں عقل و دلیل کی بحائے صرف شخصی نفرت و محبت کو مدنظر رکھتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صدارتی طرز حکومت آج تک پاکستان میں اپنی اصل شکل میں نافذ ہی نہیں ہوا ،صدارتی طرز حکومت اپنی ہیت میں ایک مکمّل جمہوری نظام حکومت ہے جس میں کسی ملک کے صدر کو براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب کیا جاتا ہے۔
جس ملک کے ہر قومی حلقہ میں ایک صدارتی حکمران اور ایک اسکے نمائندے کے ووٹ ڈالے جاتے ہیں ایک طرف وہ شخصیت صدر منتخب ہوتی ہے دوسری طرف ایک الیکٹرول کالج بھی بن جاتا ہے جہاں قانون سازی ہوتی ہے وہاں اسکی سیاسی جماعت کے حامی اور مخالفین منتخب ہوتے ہیں۔
جیسے اب ایوان زیریں اور ایوان بالا میں ہوتا ہے ،ہمارے چاروں عسکری حکمرانوں نے جو صدارتی طرز حکومت اپنایا تھا وہ اس نظام کی اصل روح کے مطابق نہیں تھا بلکہ وہ طاقت اور دھونس کا شاخسانہ تھا۔ لہذا صدارتی طرز حکومت کے بارے یہ کہنا یہ ایک آمرانہ نظام حکومت ہے یہ ایک غلط بات ہے۔ جو صحافی اور دانشور ایسا کہہ رہے وہ دانشورانہ بد دیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
کسی بھی نظام کو اگر آپ اسکی روح کے مطابق نافذ نہیں کرتے تو وہ زنگ آلودہ ہو جاتا ہے، اگر آج پارلیمانی نظام حکومت ناکام ہوا ہے اسکی ذمہ داری اس نظام سے مستفید ہونے والے حکمران طبقے پر ہے۔ یہی نظام حکومت برطانیہ میں کامیاب ہے مگر پاکستان میں ناکام ہے وجہ صرف اور بدنیتی ہے جہاں یہ نظام کامیاب ہے وہاں انکی نیت صاف ہے، وہ اپنی ریاست کو فلاحی ریاست بنا چکے اور یہ ہماری بدنیتی ہے جو اس نظام کو کامیاب نہیں کر سکے۔
ابھی تک وزیراعظم عمران خان نے باقاعدہ طور پر صدارتی نظام کی حمایت میں کوئی بات نہیں کی مگر انکے حامیوں کی طرف سے صدارتی نظام کی حمایت جاری ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ عمران خان سے جو توقعات تھیں وہ مکمل طور پر پوری نہیں ہو سکیں، ایسا ہرگز نہیں کہ عمران خان نے کچھ نہیں کیا مگر انکے حامیوں نے جو پہاڑ جیسے خواب دیکھے تھے وہ سر نہیں ہو سکے۔
عمران خان کے پاس وہ پارلیمانی طاقت نہیں کہ وہ ایوان بالا اور زیریں سے نظام کی تبدیلی کی کوئی قرارداد منظور کروا سکیں حرف آخر مجھے سابقہ وزیر خزانہ اور سماجی سائنس دان ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کی ایک بات شدت سے یاد آتی تھی کہ یہ بےایمانوں اور مافیاز کا نظام عمران خان جیسے ایماندار اور دلیر انسان کو بھی ناکام کر دے گا۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔