اسحاق ڈار کا نام سامنے آنے سے پہلے ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کوئی نہ کوئی انڈرسٹینڈنگ ہو چکی تھی جس میں پیپلز پارٹی کو آن بورڈ نہیں لیا گیا تھا ورنہ یہ نام آنا ہی نہیں تھا۔ اگر اسحاق ڈار کے نام پر اسٹیبلشمنٹ بھی راضی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے مابین بہترین تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ یہ کہنا ہے صحافی فہد حسین کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں انہوں نے کہا کہ نگران وزیر اعظم وہ بنے گا جسے اسٹیبلشمنٹ چاہے گی۔ اگر ن لیگ یا پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف جا کر اپنا کوئی نگران وزیر اعظم لانا چاہتی ہیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپنے اعتراض میں یہ نہیں کہا کہ ہمیں اسحاق ڈار قبول نہیں، بلکہ محض یہ کہا ہے کہ اس معاملے میں مشاورت نہیں ہوئی۔
نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کوئی ایسا بندہ چاہ رہی ہے جو معاشی امور جانتا ہو تو پھر ن لیگ کی کوشش ہو گی کہ نگران وزیر اعظم اسحاق ڈار ہی ہوں۔ یہ کیسا سیاسی رویہ ہے کہ بڑی اور تجربہ کار سیاسی جماعتیں عمران خان اور پی ٹی آئی کی قسمت کا فیصلہ ہونے کے بعد انتخابات میں جانا چاہتی ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا اسحاق ڈار کو لانے کا فیصلہ نواز شریف کا ہے اور آصف زرداری کو یہ پیغام پہنچا دیا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اس وقت تک ن لیگ کے مجوزہ امیدوار کے خلاف کسی قسم کی کوئی مہم نہیں چلا رہی۔
میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔