Get Alerts

وہ ٹیسٹ میچ جس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں فالو آن کا قانون بے اثر ہو گیا

وہ ٹیسٹ میچ جس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں فالو آن کا قانون بے اثر ہو گیا
15 مارچ 2001 کرکٹ کی تاریخ کا وہ دن تھا کہ جب بھارت نے آسٹریلیا کو شکست دی تو دنیا کے بڑے بڑے جغادریوں کو بھی یہ سمجھ آ چکی تھی کہ آئندہ ٹیسٹ کرکٹ میں فالو آن کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچیں گے۔ فالو آن دراصل کرکٹ کی ایک اصطلاح ہے۔ جب ٹیسٹ میچ کی پہلی  اننگز میں بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم سے 200 یا اس سے زائد رنز کے مارجن سے پیچھے ہوتی ہے تو مخالف ٹیم کے کپتان کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنی ٹیم کو بلے بازی کے لئے اتار دے یا پھر دوسری ٹیم کو دوبارہ بیٹنگ کی دعوت دے ڈالے۔ 200 سے کم رنز کا مارجن ہو تو کھیل روایتی انداز میں ہی جاری رہتا ہے۔ کرکٹ کی تاریخ میں یوں تو فالو آن سینکڑوں مرتبہ کیا گیا ہوگا لیکن مارچ 2001 میں ہونے والے اس میچ نے کھیل کے اس قانون کو تقریباً بے اثر کر ڈالا ہے۔

11 مارچ 2001 کو جب یہ ٹیسٹ شروع ہوا تو اس وقت آسٹریلیا لگاتار 16 ٹیسٹ جیت چکا تھا جو کہ کرکٹ کی تاریخ میں کسی بھی ٹیم کی جانب سے لگاتار ٹیسٹ میچ جیتنے کا ریکارڈ تھا۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے پاس تھا جس نے لگاتار 11 ٹیسٹ جیت رکھے تھے اور گیارھواں ٹیسٹ 1984 میں جیتا تھا۔ ویسٹ انڈیز نے یہ ریکارڈ قریب 16 سال اپنے پاس رکھا لیکن پھر آسٹریلیا نے 2000 میں ویسٹ انڈیز کو 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 5-صفر سے شکست دی تو یہ نیا ریکارڈ بن گیا۔ انڈیا سے ہونے والی سیریز سے پہلے آسٹریلیا لگاتار 15 ٹیسٹ میچز جیت چکا تھا۔ ممبئی میں پہلا ٹیسٹ جیت کر اس نے یہ ریکارڈ 16 ٹیسٹ میچوں تک پھیلا دیا۔ کلکتہ کے ایڈن گارڈن سٹیڈیم میں کھیلے جانے والا یہ ٹیسٹ بھی آسٹریلیا کی اجارہ داری سے شروع ہوا۔ پہلی اننگز میں آسٹریلیا نے 445 رنز سکور کیے تو کپتان سٹیو واہ 110 رنز اور اوپنر میتھیو ہیڈن 97 رنز کے ساتھ نمایاں رہے تھے۔ بھارتی بلے باز بیٹنگ کرنے کے لئے آئے تو بس یکے بعد دیگرے آؤٹ ہی ہوتے چلے جا رہے تھے۔ وی وی ایس لکشمن کے علاوہ کوئی 50 رنز کا ہندسہ عبور نہ کر سکا۔ اوپنر شیو سندرداس نے تو 20 رنز کیے بھی سداگوپن رمیش تو اننگز کی نویں اور اپنی تیسری گیند پر ہی بغیر کوئی رنز بنائے پویلین کو لوٹ چکے تھے۔ 34 رنز پر بھارت کی دوسری وکٹ شیو سندرداس کی ہی گری۔ اس کے بعد مایہ ناز بلے باز سچن ٹنڈولکر بھی 10 رنز کر کے آؤٹ ہو گئے۔ کپتان سورو گنگولی اور راہول ڈراوڈ کے درمیان شراکت داری 40 رنز تک جاری رہی لیکن پھر محض پانچ گیندوں کے فرق سے دونوں ہی کھلاڑی آؤٹ ہوئے تو اس وقت سکور بورڈ پر بھارت کا سکور 88 رنز نظر آ رہا تھا اور اس کے اوپر کے پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ چھٹے نمبر پر کھیلنے کے لئے آنے والے لکشمن اس وقت تک کریز پر آ چکے تھے۔ مگر 4 رنز کے بعد وکٹ کیپر نایان مونگیا، اس کے پانچ رنز کے بعد ہرگبھجن سنگھ اور پھر 16 رنز بعد ظہیر خان بھی آؤٹ ہوئے تو سکور بورڈ پر ٹیم کا کل سکور محض 113 تک ہی پہنچ سکا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وینکٹاپتھی راجو بھی آؤٹ ہو گئے لیکن لکشمن نے وینکٹیش پرساد کے ساتھ 42 رنز کی پارٹنرشپ قائم کر کے مجموعی سکور کو 171 تک پہنچا دیا۔ مگر یہاں آ کر ان کی بھی ہمت دم توڑ گئی اور بھارت 274 رنز سے ٹریل کر رہا تھا۔

یہی وہ موقع تھا جب آسٹریلیا کے دلیر کپتان نے over confidence میں آ کر فیصلہ کیا کہ بھارت کو فالو آن کروایا جائے۔ سٹیو واہ کرکٹ کی تاریخ کے چند عظیم ترین کپتانوں میں سے ایک تھے اور اپنے دلیرانہ فیصلوں کے باعث ہی ٹیسٹ کرکٹ میں اتنے کامیاب تھے۔ یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیسٹ میچ کا فیصلہ ہونا بھی بڑی بات ہوتا تھا اور زیادہ تر میچ ڈرا ہو جایا کرتے تھے۔ سٹیو واہ کی کپتانی میں یہ آسٹریلوی ٹیم ہی تھی جس نے یہ ٹرینڈ تبدیل کیا۔ تاہم، یہاں ان کی سب تدبیریں الٹی پڑ گئیں۔

بھارت کے پاس کھونے کو کچھ بچا نہیں تھا۔ اس لئے اس نے پوری جان لگا دی۔ پہلی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہو جانے والے سدا گوپن رمیش دوسری بار کھیلنے کے لئے آئے تو بڑے جذبے سے کھیلے۔ صرف 43 گیندوں پر 6 چوکوں کی مدد سے 30 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو سکور بورڈ پر بھارت کا مجموعی سکور 52 ہو چکا تھا۔ اس موقع پر کپتان سورو گنگولی نے وہ فیصلہ لیا جس نے اس کھیل کا پاسہ پلٹ ڈالا۔ پہلی اننگز کے واحد کامیاب بلے باز لکشمن کو ون ڈاؤن بھیج دیا گیا اور یہیں سے آسٹریلیا کا برا وقت شروع ہوا۔ لکشمن کے ساتھ شیو سریندر کچھ دیر بیٹنگ کرتے رہے لیکن 97 کے مجموعی سکور پر ان کا ساتھ دینے کے لئے سچن ٹنڈولکر کو آنا پڑا جو کہ زیادہ دیر یہ مشکل ذمہ داری نبھا نہ پائے اور 10 کے انفرادی سکور پر پویلین کی واپس راہ لی۔ یہاں ان کا ساتھ دینے کے لئے سورو گنگولی میدان میں اترے اور دونوں نے شاندار پارٹنرشپ قائم کی۔ گنگولی نے 81 گیندوں پر 8 چوکوں سے سجی 48 رنز کی اننگز کھیلی اور سکور کو 232 تک پہنچا دیا جس کے بعد وہ مک گراتھ کے اننگز میں دوسرے شکار بن گئے لیکن لکشمن ایک اینڈ پر بدستور براجمان تھے اور انڈیا اب 232 سکور کر کے پہلی اننگز کی لیڈ سے اب بھی 42 رنز پیچھے تھا اور اس کے چار کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔

اس موقع پر لکشمن کا ساتھ دینے کے لئے وکٹ پر راہول ڈراوڈ پہنچے اور کھیل کے تیسرے دن کے اختتام تک وکٹ پر جمے رہے۔ تیسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو اس وقت بھارت کا مجموعی سکور 254 تھا اور اس کے چار کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ ڈراوڈ اور لکشمن وکٹ پر موجود تھے اور ابھی آسٹریلیا کا پہلی اننگز کا ٹوٹل برابر کرنے کے لئے 20 رنز مزید درکار تھے۔ یقیناً آسٹریلوی باؤلرز اس وقت فتح کو اپنے قریب دیکھ رہے ہوں گے۔ لیکن چوتھے روز ان دونوں بلے بازوں نے کچھ ایسا چمتکار دکھایا جو کرکٹ کی تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ جی ہاں، چوتھے روز بھارت کی ایک بھی وکٹ نہ گری اور لکشمن اور ڈراوڈ میچ کو آسٹریلیا کے پنجوں سے نکال کر اس سے بہت دور لے گئے۔ لکشمن کی یہ شاندار اننگز کرکٹ کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ جب انہوں نے ڈراوڈ کے ساتھ مل کر چوتھے روز 345 رنز مزید جوڑے اور دونوں بلے باز وکٹ پر جمے رہے۔ ایک موقع تھا کہ آسٹریلیا 20 رنز کی لیڈ رکھتا تھا، بھارت اپنے چار کھلاڑی کھو چکا تھا اور مزید ایک وکٹ اس مزاحمت کو ختم کر سکتی تھی لیکن اب بھارت کے پاس 315 رنز کی لیڈ تھی اور آسٹریلیا میچ کو جیتنے کی پوزیشن سے تقریباً باہر نکل چکا تھا کیونکہ چوتھے دن کے اختتام تک یہی دو کھلاڑی وکٹ پر جمے رہے تھے۔ اگلی صبح لکشمن نے محض چھ رنز اور کیے لیکن جب وہ پویلین کی طرف واپس جا رہے تھے تو کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام لکھوا چکے تھے۔ بھارت کا مجموعی سکور 608 ہو چکا تھا اور آسٹریلیا کے پہلی اننگز کے ٹوٹل پر اسے 332 رنز کی برتری حاصل ہو چکی تھی۔ مونگیا نے محض 4 رنز کا اضافہ کیا لیکن ڈراوڈ دوسرے اینڈ پر تیزی سے رنز لوٹ رہے تھے۔ 180 کے انفرادی سکور پر ڈراوڈ رن آؤٹ ہوئے تو تب تک بھارت 629 رنز کر چکا تھا اور اب سوال یہ تھا کہ اننگز ڈکلیئر کر کے آسٹریلیا کو بیٹنگ کا موقع کب دیا جائے۔ ہربھجن سنگھ کریز پر پہنچے، دوسرے اینڈ پر ظہیر خان موجود تھے۔ دونوں نے جلدی جلدی 28 رنز اور کیے جن میں ظہیر خان کے 15 گیندوں میں 23 اور ہربھجن کے 6 گیندوں میں 8 رنز شامل تھے، اور 657 کے مجموعی سکور پر گنگولی نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ کیا تو آسٹریلیا کے سامنے 384 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف کھڑا تھا۔

آخری دن کے 75 اوورز میں یہ ہدف حاصل کرنا قریب ناممکن تھا لیکن ڈرا کے لئے کھیلا جا سکتا تھا اور آسٹریلیا نے شروعات اچھی کی۔ میتھیو ہیڈن اور مائیکل سلیٹر نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 74 رنز بنا لیے تو سلیٹر ہربھجن کی آف سپن کا شکار بننے والے اس روز پہلے آسٹریلوی بلے باز تھے۔ لیکن آخری ہرگز نہیں۔ جسٹن لینگر 28 رنز کر کے آؤٹ ہوئے تو بھارت کے سپنر کھیل پر حاوی ہونے لگے۔  دس رنز بعد ہی مارک واہ کو بھی راجو گھر کی راہ دکھا چکے تھے۔ اس موقع پر کپتان سٹیو واہ اور ہیڈن کے درمیان ایک 50 رنز کی شراکت قائم ہوئی لیکن 24 کے انفرادی سکور پر سٹیو واہ آؤٹ ہوئے تو اس وقت تک آسٹریلیا کی تمام امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔ کھیل میں اب صرف 30 اوور کا کھیل باقی تھا اور سامنے پہاڑ جیسا ٹوٹل۔ ٹیسٹ میچ کے پانچویں دن سپنرز کی گیندیں لٹو کی طرح گھوم رہی تھیں۔ اسی اوور کی آخری بال پر ہربھجن نے پونٹنگ کو صفر پر آؤٹ کیا تو مانو جیسے سیلاب کے آگے سے بند ہی ٹوٹ گیا ہو۔

اس کے بعد کا کھیل محض کاغذی کارروائی ثابت ہوا کیونکہ اگلے ہی اوور میں ٹنڈولکر نے گلکرسٹ کو صفر پر آؤٹ کیا اور پھر دو اوورز بعد انہوں نے ہیڈن کو بھی چلتا کیا تو آسٹریلیا 383 رنز کے تعاقب میں 173 رنز پر اپنے تمام بلے باز کھو چکا تھا اور اب سامنے صرف چار باؤلرز ہی بلے بازی کر سکتے تھے جن کو 26 اوور مزید کھیلنا تھے۔ اپنے اگلے اوور میں ٹنڈولکر نے شین وارن کا بھی صفایا کر دیا۔ انہوں نے بھی اب تک سکور بورڈ پر اپنا کھاتہ نہیں کھولا تھا۔ جیسن گلیسپی (6)، کیسپرووچ (13٭) اور مکگراتھ (12) نے کچھ ہمت دکھائی مگر ہربھجن کی گیندبازی کے آگے ان کی بھی ایک نہ چلی۔ اور بالآخر کھیل کے اختتام سے 39 گیندیں پہلے ہربھجن نے مکگراتھ کو ایل بی ڈبلیو کیا تو آسٹریلیا کو 16 لگاتار ٹیسٹ میچز کے بعد بالآخر شکست کا مزا چکھنا ہی پڑا۔

اس میچ میں ہربھجن نے 13 وکٹیں حاصل کیں، بشمول پہلی اننگز کی اس ہیٹ ٹرک کے جس میں انہوں نے آسٹریلیا کے دو مایہ ناز بلے بازوں رکی پونٹنگ اور ایڈم گلکرسٹ کے ساتھ ساتھ آل راؤنڈر شین وارن کو بھی آؤٹ کیا تھا۔ ڈراوڈ نے 180 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور پہلی اننگز میں سٹیو واہ کی شاندار سنچری بھی ناقابلِ فراموش تھی لیکن لکشمن اس میچ کو اپنے نام کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ان کی شدید دباؤ میں 281 رنز کی اننگز نے انہیں بھارتی کرکٹ کا ایک ناقابلِ فراموش کھلاڑی بنا دیا بلکہ آسٹریلیا کا ریکارڈ توڑنے کے باعث یہ اننگز اور یہ ٹیسٹ اور بھی یادگار بن گیا۔ یہ میچ جہاں بھارتی کرکٹ شائقین کے لئے کچھ دلکش یادیں چھوڑ گیا، وہیں بین الاقوامی کرکٹ شائقین کو بھی ایک ریکارڈ دے گیا۔ کرکٹ کی تاریخ میں یہ محض تیسرا واقعہ تھا کہ جب ایک ٹیم نے فالو آن ہونے کے بعد ٹیسٹ میچ جیتا۔ پہلا میچ 1894 میں انگلینڈ نے آسٹریلیا کے خلاف جیتا تھا، دوسرا انگلینڈ ہی نے آسٹریلیا ہی کے خلاف 1981 میں جیتا اور پھر تیسرا 2001 میں بھارت نے بھی آسٹریلیا کے خلاف جیتا۔ یوں کہا جائے کہ ایک صدی میں ایک ہی بار ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

موجودہ دور کی کرکٹ اتنی تیز ہو چکی ہے کہ اب دوسری اننگز میں ٹیم خود کھیلنے آتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ملبہ چڑھا کر مخالف کو چوتھی اننگز میں ایسے مقام پر بیٹنگ کے لئے موقع دیتی ہے جب اس کے پاس ٹیسٹ جیتنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ مگر یہ حقیقت بھی بھلائی نہیں جا سکتی کہ اس میچ کے بعد سے کوئی بھی کپتان فالو آن کرنے کا سوچتا بھی ہے تو اسے لکشمن کی یہ اننگز یاد آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں اب اور کچھ ہو نہ ہو، فالو آن شاذ ہی دیکھنے میں آتا ہے۔