آئی سی سی ورلڈ کپ 2019 کے اہم ترین معرکے میں کپتان سرفراز احمد کا ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ تو درست تھا مگر بھارتی ٹیم نے اس فیصلے کو غلط ثابت کر دیا۔ پاکستان بھارت کے خلاف میچ میں بھی فیلڈنگ بہتر نہ کر سکا۔ پاکستان نے روہت شرما کو رن آؤٹ کرنے کا آسان موقع گنوایا جو ٹیم گرین کے لئے مہنگا ثابت ہوا اور انہوں نے 140 رنز کی شاندار اننگز کھیلی جس کی بدولت بھارت ایک بڑا ٹوٹل کرنے میں کامیاب ہوا۔
بھارت کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں بھی سوائے محمد عامر کے کوئی بھی پاکستانی باؤلر عمدہ بالنگ نہیں دکھا سکا۔ میچ میں عماد وسیم کی واپسی کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ انہوں نے 10 اوورز میں صرف 49 رنز دیے اور عمدہ گیند بازی کا مظاہرہ کیا مگر وہ بھی وکٹ لینے میں کامیاب نہ ہو سکے مگر عماد نے 39 گیندوں پر 6 چوکوں کی مدد سے ناٹ آؤٹ 46 رنز بنائے۔ عماد وسیم نے اگلے میچ کے لئے اپنی پوزیشن کو مظبوط کر لیا ہے۔
ٹیم کے سب سے سینیئر پلیئر شعیب ملک بھارت کے خلاف اہم میچ میں بھی ناکام رہے اور پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہو کر واپس چلے گئے۔ میں نے آسٹریلیا سے شکست کے بعد ہی کہہ دیا تھا کہ شعیب ملک کو آرام کی ضرورت ہے اور ان کی جگہ حارث سہیل کو موقع ملنا چاہیے۔
حسن علی نے 9 اوورز میں 84 رنز دیے اور سب سے مہنگے باؤلر ثابت ہوئے۔ آسٹریلیا کے خلاف حسن علی عمدہ بیٹنگ کرنے میں کامیاب رہے تھے مگر باؤلنگ میں وہ مسلسل ہر میچ میں ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ چار میچز میں مجموعی طور پر 33 اوورز میں 256 رنز دے کر صرف 2 وکٹیں حاصل کر سکے ہیں۔ حسن علی بطور باؤلر ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل ہیں اس لئے ان سے بیٹنگ میں کسی معجزے کی امید رکھنے کے بجائے ایک میچ میں آرام دیا جائے اور ان کی جگہ محمد حسنین کو کھلایا جائے۔
بھارتی ٹیم نے ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کے خلاف فتوحات کے سلسلے کو تھمنے نہیں دیا۔ پاکستان اور بھارت کے میچ کے دوران جہاں ہر طرف کرکٹ کا جنون سوار تھا وہیں کچھ ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جو دل کو چھو لینے والے تھے۔ گراؤنڈ کے باہر اور گراؤنڈ کے اندر شائقین کرکٹ میچ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور اپنے عمل سے ثابت کر رہے تھے کہ کھیلوں کے ذریعے ہم نفرتیں مٹا سکتے ہیں۔
پاک و ہند آغاز دوستی فورم بھارت کی کنوینر دیویکا متل کا کہنا تھا کہ: ’’پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ سیریز ہونی چاہیے جو نہ صرف امن کو فروغ دے گی بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لائے گی۔ اگر پاک بھارت سیریز کھیلی جائے تو کسی نیوٹرل جگہ کا انتخاب کرنے کے بجائے پاکستان یا بھارت میں سیریز کھیلی جائے تاکہ دوریاں ختم ہوں۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلی جانے والی کرکٹ کو صرف کھیل نہیں کہا جا سکتا۔ یہ جذبات کا وہ سمندر ہے جو اپنی لہروں سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارتی کرکٹ بورڈز کو ورلڈ کپ کے فوری بعد دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ سیریز کے لئے بات چیت کرنی چاہیے جس کے میچز دونوں ممالک میں کھیلے جائیں اور بھارت میں ہونے والے کرکٹ میچوں میں پاکستانی وزیراعظم اور پاکستان میں ہونے والے کرکٹ میچوں میں بھارتی وزیراعظم کو بطور مہمان خصوصی میچ دیکھنے کی دعوت دی جائے۔
اگر یہ کرکٹ سیریز ہوگئی تو دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ تعلقات میں بہتری کے لئے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کو کرکٹ ڈپلومیسی کا جادو چلانا ہوگا۔