سابق آرمی چیف جنرل ( ر ) قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس لیفٹننٹ جنرل ( ر ) فیض حمید نے آئین نہیں توڑا، اگر انہوں نے ایسا کچھ کیا ہے تو سامنے لایا جائے کہ انہوں نے کون سا قانون توڑا ہے۔ ان دونوں سابق فوجی افسران کے عہدے کا دائرہ اختیار بہت وسیع ہے۔ یہ کہنا تھا سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا۔
نجی نیوز چینل سماء کے پروگرام ' دو ٹوک' میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو پارلیمنٹ میں بلا کر ان سے وضاحت مانگنے اور ان کے احتساب کے لیے قرار داد پیش کرنے کی بات ایک ٹی وی پروگرام میں کی۔ ٹی وی پر ہم اپنی ذاتی رائے دے رہے ہوتے ہیں۔ ہم وزیر ہوں تب بھی ٹی وی پر بیٹھ کر وہ بات کرتے ہیں جو ہمارے اپنے ذہن میں اور ہماری سوچ کے مطابق ہوتی ہے۔اس وقت ہم حکومت کی نمائندگی نہیں کر رہے ہوتے۔ خواجہ صاحب نے بھی اسی پس منظر میں بات کی ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت خواجہ صاحب کے مطالبے سے اتفاق کرتی ہےتو اس معاملے میں کسی کو جنرل باجوہ اور فیض حمید کے خلاف شکایت دائر کرنی پڑے گی کہ ان دو اشخاص نے ملک کا فلاں قانون توڑا ہے۔ پھر اس پر حکومت کی جانب سے قانونی کارروائی کی جائے گی۔ چاہے ان کے خلاف مقدمہ درج ہو یا کوئی ریفرنس فائل ہو ۔ قانونی دائرہ اختیار کو دیکھنا ہوگا کہ اس میں کون سی دفعات لگیں گی۔ اس کے علاوہ انکوائری کمیشن بھی بنایا جاسکتا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی بھی اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے لیکن وہ ذرا پیچیدا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کا دائرہ اختیار بھی چیلنج ہو جاتا ہے اور آپ کسی کو سزا دینے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کا 2016 سے 2022 تک 6 سالہ دور گزرا ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ اس دوران جنرل باجوہ اور فیض حمید نےکبھی آئین توڑا ہو۔ اگر انہوں نے ایسا کچھ کیا ہے تو سامنے لایا جائے کہ کون سا قانون توڑا ہے۔ ان دونوں کے عہدے کا دائرہ اختیار بہت وسیع ہے۔ اگر ہم اس معاملے میں جائیں گے تو بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
سابق وزیر اعظم نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں حقائق عوام کے سامنے لانے کے لیے ٹروتھ کمیشن بنایا جائے اور اس کمیشن کے ذریعے سامنے لایا جائے کہ ملک میں کیا ہوتا رہا ہے۔ ہر آدمی جس معاملے کو جانتا ہے اس پر بیان ریکارڈ کروا دے۔لوگ آگر بتائیں کہ جنرل باجوہ اور فیض حمید نے کیا اچھایا کیا برا کام کیا ہے۔ پھر بہت سے پردہ نشینوں کے نام آنا شروع ہوجائیں گے، پورے ملک میں ہلچل مچ جائے گی۔ ہر کوئی احتساب کی بات کرتا ہے مگر ملک کی 70 سالہ تاریخ میں یہاں کبھی کسی کا احتساب نہیں ہوا۔
جج صاحبان نے غلط فیصلے کیے، جرنیلوں نے ملک کے قانون کو توڑا، سیاست دانوں نے ملک کی تباہی پھیر دی مگر کسی نے نہیں پوچھا۔ ہم احتساب کی بات تو کرتے ہیں مگر نیت نہیں ہوتی۔ اگرکوئی کرپشن کرتا ہے تو ہم قانون کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ مجھ سے پہلے وزیر پٹرولیم پر 458 ارب کرپشن کا کیس تھا۔ بعد میں کچھ ثابت نہ ہوا اور کیس بند ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں قومی احتساب بیورو کو بند کر کے ہر ایک کا ٹیکس ریکارڈ رکھا جائے۔ جو بھی پیسے خرچ کرتا ہے اس کی آمدن ہونی چاہیے۔ اگر آمدن ہے تو دیکھا جائے ٹیکس ادا کیا ہے یا نہیں ۔ اگر آمدن نہ ہو اور اخراجات کروڑوں میں ہوں تو جواب تو دینا پڑے گا۔ پارلیمنٹ کے ممبران، وزرا کے ٹیکس ریکارڈ پبلک ہوتے ہیں اور ہر سال ان کو گزٹ پر پبلش کیا جاتا ہے۔ ہم چھپا نہیں سکتے کہ ٹیکس ادا کیا ہے یا نہیں۔ لہٰذا اگر میں ٹیکس نہیں دے رہا یا کم دے رہا ہوں اور اخراجات لاکھوں کروڑوں میں جاتے ہیں تو مجھے جواب تو دینا پڑے گا۔
موجودہ کابینہ میں دو اہم وزارتیں مسلم لیگ ن کو نہ ملنے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو اس پر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ موجودہ کابینہ میں نئے لوگ بھی ہیں۔ محمد اورنگزیب کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی پر تنقید مناسب نہیں۔ جو دو لوگ ان وزارتوں میں آئےہیں وہ بھی ن لیگ کے ہی ہیں۔ اگر پارٹی میں قابل لوگ نہ ہوں تو باہر سے لوگ لائے جا سکتے ہیں، جن لوگوں کو کابینہ میں لایاگیا ہے وہ کام کریں۔ اگر یہ لوگ کام نہ کریں تو ان کو نکال دیا جائے۔