ہائے ری مہنگائی

ہائے ری مہنگائی
مہنگائی کے طوفان نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ آسمان کو چھوتی قیمتوں نے غریب کے لئے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل کر دیا ہے۔ اشرافیہ اور حکمران طبقہ غریب کی مشکلات سے کنی کترا کر اپنی دنیا میں مست ہے۔ عوام کے ٹیکس سے عیاشی کرنے والے حکمران اور افسران کو غریب کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں۔ مستقبل کی کوئی طویل البنیاد پلاننگ نہیں۔ ہر آنے والا پچھلوں کی غلطیوں اور خزانہ خالی کرنے کا رونا رو رو کر اپنی مدت پوری کرتا ہے۔

راقم کی تحقیق کے مطابق مہنگائی کی ایک اہم وجہ تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ہے۔ گاڑی کے پہیے سے لے کر فیکٹری کی مشینوں کا حرکت میں رہنا تیل اورایندھن کا ہی مرہون منت ہے۔ ہماری ستم ظریفی ہے کہ عوام کو تیل کی عالمی منڈی کے نظام سے بچانے کے لئے کسی کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے یا پھر جان بوجھ کر اس معاملے پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

جو وقت ضائع ہو گیا، بھول جائیں، آگے دیکھیں

چاہیے تو یہ تھا کہ توانائی کے متبادل ذرائع پر سنجیدگی سے کام کیا جاتا۔ اس ضمن میں سورج کی حرارت اور کچرے کو بطور ایندھن استعمال کر کے توانائی حاصل کرنے کے منصوبے لگائے جا سکتے تھے۔ ونڈمل کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا تھا۔ بہرکیف اگر ماضی میں کسی بھی وجہ سے ایسا نہيں کیا جا سکا تو اب دانش مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس بارے میں سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے جائیں۔

عوام سے سیلز ٹیکس کے نام پر اربوں روپے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کھانے پینے اور استعمال کی ہر چیز پر سیلز ٹیکس ہوتا ہے اورطحکومت کو اس مد میں کثیر رقم حاصل ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ٹیکس سے حاصل کی گئی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے جبکہ ہماری طرف الٹی گنگا بہتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ميں امیر زیادہ ٹیکس دیتے ہيں جبکہ ہمارے یہاں زیادہ ٹیکس غریب سے حاصل کیا جاتا ہے اورپھر بھی غریب ہی پستا ہے۔ ٹیکسوں سے حاصل کی گئی رقم کو قیمتوں میں اضافے کی صورت میں عوام کو سبسڈی دینے پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ٹیکسوں کی آمدنی سے ادا کر کے بھی غریب عوام کی مدد کی جا سکتی ہے۔

کسی فرد کو اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے

ایک اہم مسئلہ قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر کنٹرول کا بھی ہے۔ کسی فرد کو اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر تیل کی قیمتوں میں اضافے پر ٹرانسپورٹرز اپنی مرضی سے کرائے بڑھا دیتے ہيں مگر تیل کی قيمتیں کم ہونے پر کرائے کم نہیں کرتے۔ يہی حال کھانے پینے اور استعمال کی اشیا کا بھی ہے۔ پرائس کنٹرول کا فعال، شفاف اور عوام دوست ںظام ہونا چاہيے۔

کئی ترقی یافتہ ممالک ميں سال میں ایک بار قیمتوں ميں اضافے کے ساتھ کم سے کم اجرت ميں اضافے کا اصول رائج ہے۔ ہمارا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کی برائی کو تو فورآّ اپنا لیتے ہیں مگر انکی اچھائیوں کو نظر انداز کر ديتے ہيں۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے نظام پر تحقیق کر کے قابلِ عمل اور عوام دوست اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

غریب عوام کے لئے مخلصانہ اور انقلابی اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور قوم ایک سچے و مخلص مسیحا کے انتظار میں ہے۔

مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں