پاکستان ٹیلی ویژن میں نوکری کے آغاز پر چند ایک چھوٹے پروجیکٹ کر لینے کے بعد میری متوازی تھئیٹر ہسٹری کو دیکھتے ہوئے اچانک انتظامیہ نے مجھے ایک بڑا پروجیکٹ دے دیا جس کے لیے میں ذہنی طور پر ابھی تیار نہیں تھا لیکن میرے پروگرام مینیجر نے میری ایک نہ سنی اور مجھے یہ گلے پڑا ڈھول بجانا پڑا۔
سکرپٹ میں موجود مرکزی کردار کے لیے مجھے اسماعیل تارا سب سے موزوں اداکار محسوس ہو رہے تھے۔ انہیں فون ملایا، اپنے مختصر سے تعارف کے بعد کچھ سوال جواب ہوئے اور وہ میرا پروجیکٹ کرنے کے لیے راضی ہو گئے۔
ہم نے تین دن تک لاہور میں مختلف لوکیشنز پر ریکارڈنگ کی۔ میرا یہ پہلا سولو پروجیکٹ تھا۔ اس لیے میں نے تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک ایک اداکار کے ڈائیلاگز اور کس اسسٹنٹ نے کیا کام کس وقت کرنا ہے، مجھے سب کچھ ازبر تھا۔ اس لیے کسی غیر ضروری وقفے اور تاخیر کی نوبت نہ آئی۔ سارا کام ٹائم ٹیبل کے عین مطابق ہوا۔ خوش قسمتی سے معاونین کی ٹیم بھی مجھے اچھی ملی۔
حقیقی زندگی میں خاموش طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا اسماعیل تارا شوٹنگ کے دوران فارغ وقت میں خاموشی سے ایک طرف بیٹھا سب نوٹ کرتا رہتا۔ جب سیٹ پر اپنے سین ریکارڈ کروانے کے لیے کھڑا ہوتا تو مکمل طور پر اپنے آپ کو ڈائریکٹر کے سپرد کر دیتا جیسے اسے کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔ اچھے اداکار کی یہ انتہائی اہم خوبی ہے جو ڈائریکٹر کے کام کو بہت آسان کر دیتی ہے۔ بہت سے سینیئر اداکار اس خوبی سے محروم ہیں۔
ذہنی طور پر میں اس قدر مشغول تھا کہ ایک دن گھر سے آتے ہوئے ڈرائیونگ کے دوران سوچتے سوچتے مال روڈ پر لال بتی کراس کر گیا اور پولیس نے پکڑ لیا۔ تعارف کروانے پر انہوں نے چھوڑ دیا لیکن بے شمار نصیحتوں کے ساتھ۔ ریکارڈنگ کے آخری دن اس مرحلے کے بعد ایڈیٹنگ کا مرحلہ شروع ہونا تھا۔ مجھے یہ بات بہت تنگ کر رہی تھی کہ اس پروجیکٹ کی فائنل شکل کیا نکلے گی، انتظامیہ خوش ہوگی کہ نہیں۔
اسماعیل تارا ایک انتہائی راست گو انسان تھا۔ سینیئر ہونے کی وجہ سے انہیں کسی کی خوشامد کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ جب ریکارڈنگ ختم ہوئی اور میں نے انہیں بتایا کہ آپ کا کام ختم ہوگیا اور آپ جا سکتے ہیں۔ وہ مجھے ایک طرف لے گئے اور میری اتنی حوصلہ افزائی کی کہ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ بولے بہت عرصے کے بعد اتنا ہموار اور پروفیشنل کام کرنے کا موقع ملا ہے (اس کی وجہ شاید میرا پہلا پروجیکٹ ہونے کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ تیاری کرنا تھا)۔ بہرحال ان کے الفاظ نے مجھے جیسے اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔ مجھے احساس ہوا کہ کام کچھ ٹھیک ہوا ہے اور کم از کم عزت رہ جائے گی۔ اب مجھے اگلے مرحلے کی کوئی فکر نہیں تھی۔
اللہ اسماعیل تارا کو جنت میں جگہ دے اور ان کی اگلی منزلیں آسان کرے۔