لندن سرکار سے ریحام خان اور اے آر وائی کی 'امپورٹڈ' معافیاں

لندن سرکار سے ریحام خان اور اے آر وائی کی 'امپورٹڈ' معافیاں
ہمارے یہاں رجحان رہا ہے کہ امپورٹ کی ہوئی چیز ہمیں پسند آ ہی جاتی ہے، چاہے وہ یہاں کتنی ہی نا پسندیدہ ہو۔ انگریزی میں تو گالی بھی بھلی لگتی ہے، اور ولائیتی معذرت کی تو کیا بات! سوری کو شان، جبکہ معافی کو کُفران سمجھا جاتا ہے۔ اگرکسی سے باقاعدہ معذرت کرنی پڑجائے، تولگتا ہے پوری زندگی کی عزت داؤ پر لگ گئی۔

آج کل لگتا ہے معافیوں کا موسم ہے۔ ایک دوسرے کے مخالفین کی طرف سے ایک کے بعد ایک معافی آئی ہے۔ پہلے میڈیا پرسن ، ایکٹویسٹ اور وزیراعظم کی سابقہ بیوی ریحام خان کی طرف سے بے جا حرف گیری پر معاون خصوصی ذُلفی بخاری کو عدالت اور ٹویٹر پر معذرت ہوئی ہے، تو ایک دو دن کے اندر اے آر وائی کی یورپین برانچ نے مسلم لیگ ن دور کے وزیر خزانہ اسحق ڈار پر غلط الزام لگانے پر عدالتی تحریری معافی مانگی ہے۔

اپنےقصور کوسرعام ماننا پاکستانی معاشرت اور سیاست میں اچنبھے کی بات ہے۔ بغیرسوچ بچار اور تحقیق کے الزامات در الزامات کے گھنے اور خوفناک جنگل میں تلافی کے چند پھول کھلیں تو یقین کیسے آئے؟ ذرا غور کرنے اور خبر سننے سے پتہ چلا کہ یہ پھول بھی 'درآمد شدہ' ہیں، اور وہ بھی لندن سرکار سے، ورنہ دیسی کھاد سے تو یہاں سے بہتان کے جھاڑ کانٹےہی نکلتے ہیں۔

آزادی کے بعد بھی لندن ہماری سیاست اور معاشرت کا محور رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں، میڈیا چینلوں کے دفاتر کے علاوہ کچھ سیاستدانوں کی 'جائے پناہ' بھی لندن ہی رہی ہے۔ یہیں سے سالوں الطاف حسین سالوں ایم کیو ایم کے مرکزی دفترسے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو کنٹرول کرتے رہے ، اور جب چاہے لندن سے چابی گھما کر شہربند بھی کر دیتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستانی سیاست کی 'مصلحت یا مجبوری' کے تحت بڑے بڑے پلان بنتے اورمعاہدے ہوتے رہے ، جیسے مشرف دور میں چارٹر آف ڈیموکریسی اور نوازشریف دور میں لندن پلان۔ آج بھی نواز شریف حکومت کی اجازت سے علاج کی غرض سے لندن تشریف فرما ہیں، جسے حکومت اُن کی راہِ فرار قرار دیتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ آج بھی پاکستان کے بارے میں بڑے بڑے فیصلے لندن میں ہی کیے جاتے ہیں، اور ایک قیاس کے مطابق انگریزی سرکار پاکستان کے خلاف سازشوں میں شریک رہ کر اور اپنے مفاد کی خاطر پاکستان کو مطلوب ملزموں اور مجرموں کو حوالے نہیں کرتی، لیکن بات جب لندن کے شہریوں اور رہائشیوں کے حقوق اور ان کی عزت کی ہو تو وہاں کی عدالتوں میں انصاف عمل میں آتا ہے۔ جیسے ریحام خان اور نجی چینل پر اسحق ڈار اور زلفی بخاری کے ہتک عزت کے دعوے صحیح ثابت ہوئے اور انصاف ایسا ہوتا نظر آیا کہ ملزموں نے اپنے جھوٹے الزامات سب کے سامنے اور کھلے بندوں تسلیم کیے، اورہرجانے بھی ادا کیے۔

صرف انگلستان میں ہی کیا، دنیا کے ممالک میں جہاں اور شہریوں کے قانونی حقوق کی پاسداری ہے، وہاں ہتک عزت کے قوانین ایسے سخت ہیں کہ غلط الزام لگانے کا تو تصور ہی نہیں ہے۔

ہمارے ہاں کی طرح نہیں کہ بے سروپا الزامات کو دہراتے چلے جانا کلچر کا حصہ بن جائے۔ اسحق ڈار اور زلفی کے ہتک عزت کے دعوؤں میں مدعی لندن میں دیئے گئے قانون حقوق کے مجاز تھے، ورنہ پاکستان میں رہنے والوں پر یا یہاں پررہتے ہوئے جتنے چاہے اتہام لگائیں ۔ گلیوں، بازاروں، میڈیا سٹوڈیوں،حتیٰ کہ پنکچر کی دکان پر ' پینتیس' کے حساب سے دعوٰی کریں، کوئی پوچھے گا بھی نہیں، یا پوچھے جانے پر اس کو 'سیاسی بیان' سے بدل دے گا۔

اسی طرح دیکھا جائے تو اے آر وائی کی بھی 'باہرلی' برانچ نے معزرت کی ہے ،ورنہ لوکل برانچیں تو دن رات کی توہین و تشنیع کی 'ریٹینگ' پر ہیں ۔ یہ نہ کریں تو چلیں کیسے؟

ریحام خان بھی 'اگر' ایک اور غلطی سے سیکھنا چاہیں تو سیکھ سکتی ہیں۔روایتی جوش میں آکر 'یار غار'کو رگیدنے سے ان کے کتاب میں لگائےگئے 'بڑے بڑے' الزامات پر بھی سوالیہ نشان اُٹھ رہے ہیں۔ عداوت اور تنقید میں فرق روا رکھنے کی محترمہ کو شدید ضرورت ہے۔

اس تناظر میں لیکن داد دینی پڑتی ہے حکومتی ترجمانوں کو، جنہوں نے ریحام خان کی معزرت کو تو خوب اُچھالا، لیکن اپنے سابقہ اور حالیہ متواتر الزامات کےغلط ثابت ہونے پر کبھی کسی شرمندگی کا معمولی مظاہرہ بھی نہیں کیا۔

خیر 'نئی' سیاست کے پروان چڑھنے میں عزت اُچھالنے اور الزام دھرنے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، اس کے علاوہ ہمارے کچھ چینلوں کی دال روٹی اور ریٹنگ بھی اسی سے چلتی ہے کہ عوامی آگہی ہونے کے باوجود ہتک عزت کے قانون اور دعوؤں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری عدالتوں کی ہے کہ وہ بغیر قصور کےنشانہ بننے والوں کو انصاف دیں اور اس کو آرٹیکل چھ نہ بنایئں۔

لندن سے لپٹی معذرتیں تو ہمارے لیے اور خاص کر زلفی بخاری اور اسحق ڈار کیلیے خوش آئند ہیں، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم سمیت ان کے پیش رو یہی کام یہاں دھڑلے اور ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ یہاں بھی قانون پر عمل ہونا چاہیے، ورنہ سرپھٹول اور گریبان میں ہاتھ ڈالنے کی روایت یہاں چلتی رہے گی۔

مصنف منصور ریاض ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں