بھارت اب چین اور پاکستان کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے: امریکی اخبار

بھارت اب چین اور پاکستان کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے: امریکی اخبار
یہ مضمون امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے رضا ہاشمی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

گذشتہ برس چین کے ساتھ نصف صدی میں ہونے والی مہلک ترین جھڑپوں کے بعد ہندوستانی فوج نے ہمالیہ کی بلندیوں پر واقع سرحد کے 500 میل کے علاقے کو مضبوط بنانے کے لئے ہنگامی اقدامات کیے ہیں۔

پچھلے ایک سال میں اس نے مشرقی لداخ کے متنازعہ علاقے میں فوجیوں کی تعداد کو تین گنا بڑھا کر 50،000 سے زیادہ کر دیا ہے۔ سردیوں کے بیشتر حصے کے لئے منقطع ہو جانے سے پہلے اس نے نقطۂ انجماد سے کہیں نیچے رہنے والے درجہ حرارت اور 15،000 فٹ کی بلندی پر خوراک اور دیگر ساز و سامان کو ذخیرہ کیا ہے۔ ہندوستان نے اعلان کیا ہے کہ ایک پوری سٹرائیک کور، ہزاروں مزید فوجیوں کی لڑاکا فورس، پاکستان کے ساتھ طویل، غیر مستحکم سرحد سے اٹھا کر چین کے ساتھ متنازعہ سرحدی علاقے میں تعینات کی جائے گی۔

ہندوستان کی فوج اب ایک ایسی حقیقت سے نبرد آزما ہے جس کا ملک کو تقریباً دو دہائیوں سے خدشہ تھا۔ وہ دشمن پڑوسیوں کے ساتھ دو محاذوں کے تنازع میں ملوث ہو گیا ہے۔ اور خدشے کی بات یہ کہ یہ تینوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

یہ سب اس وقت سامنے آیا جب ہندوستان تیزی سے اپنے ہمسایہ خطے میں خود کو تنہا پا رہا ہے۔ یہ خطرہ صدر بائیڈن کی جمعہ کے روز امریکہ، ہندوستان، آسٹریلیا اور جاپان کے اتحاد جسے کواڈ کہا جاتا ہے کے ساتھ بات چیت کے نکات میں عالمی سلامتی کے پس منظر میں اٹھایا گیا۔
چین نے سری لنکا سے نیپال تک سرمایہ کاری کی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی فتح، جو کہ پاکستان کی جانب سے پروان چڑھائی جانے والی ایک تحریک ہے اور جس کے چین سے تعلقات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، اس کے بعد بنیادی طور پر بھارت کو خطے میں ایسے ملک سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں جسے یہ علاقائی توازن میں قدرتی اتحادی کے طور پر دیکھتا تھا۔

اس کی سرحدوں پر مکمل جنگ کا امکان نہیں بھی ہے تو بھی یہ صورتحال مسلسل ہندوستان کو مالی طور پر نقصان پہنچاتی رہے گی۔ کورونا وائرس کی وبا نے معاشی سست روی کو مزید بڑھا دیا ہے جس کے بعد ایک ایسی قوت جو پہلے ہی وسائل کی قلت کا شکار اور خود کو جدید بنانے کی جدوجہد بمشکل جاری رکھے ہوئے ہے، وہ خود کو موجودہ صورتحال میں مشکل میں پاتی ہے۔

دونوں بڑے پڑوسیوں کے درمیان اعتماد ایسا ٹوٹا ہے کہ پچھلے سال ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپوں کے بعد سے مذاکرات کے ایک درجن ادوار کے باوجود تناؤ کو کنٹرول تو کر لیا گیا، لیکن اس کے نتیجے میں کشیدگی کم نہیں ہوئی۔ دونوں ملک ہر وقت جنگی حالت میں ضرور رہیں گے، چاہے جنگ نہ بھی کریں۔

چین کا پلڑا بھاری ہے

اگرچہ بھارت بلندی پر لڑنے میں ماہر ہے، لیکن اس کا مقابلہ چینی فوج سے ہے جو کہ مالی طور پر بہت بہتر اور جدید اسلحے سے لیس ہے۔ چین، جس کی معیشت ہندوستان سے پانچ گنا بڑی ہے، ہندوستانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرتے ہوئے خطے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

چین اور پاکستان کے درمیان پہلے ہی گہرے تعلقات ہیں۔ ہندوستان کی مصیبت میں اضافے کے لئے ان دونوں ممالک میں کوئی بھی تعاون بھارتی فوجی صلاحیت و ذخائر کا امتحان ہوگا۔

بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل وید پرکاش ملک نے کہا ہے کہ گذشتہ سال وادی گولان میں ہونے والی جھڑپیں جن میں کم از کم 20 ہندوستانی فوجی اور کم از کم چار چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے، اس نے ہندوستان کے حساب کتاب کو یکسر الٹ کر رکھ دیا ہے۔

جنرل ملک کے مطابق "گالوان نے ایک اور پیغام دیا کہ چین ان معاہدوں کا احترام نہیں کر رہا جو اس نے کیے تھے۔ میرے خیال میں گالوان میں سب سے بڑا نقصان یہ نہیں تھا کہ ہمارے 20 فوجی مارے گئے۔ اصل نقصان تو یہ تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد ٹوٹ گیا۔"

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی وسائل کو بڑھانے اور فوج میں جدت لانے کے لئے فوجی اصلاحات کو تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی حکومت نے سرحدی جھڑپوں کے بعد پچھلے سال فوج کو اضافی ایمرجنسی فنڈز بھیجے۔

لیکن بھارت کی سست معیشت کی رکاوٹیں مودی کے نئے دفاعی بجٹ کے پیغام سے واضح تھیں کہ فوج اخراجات میں نمایاں اضافے کی توقع نہیں کر سکتی۔ بجٹ میں آلات اور ہتھیاروں کی خریداری کے لئے زیادہ رقم مختص کی گئی لیکن دفاع کے لئے مختص مجموعی رقم جی ڈی پی اور کل سرکاری اخراجات کے حصے کے مقابلے میں اس سال بھی کم ہوئی۔

ہمالیہ کے علاقے میں اس طرح کی فوجی موجودگی کو برقرار رکھنا ایک جان جوکھم کا کام ہے، اگرچہ اس کا ہندوستانی فوج کو تجربہ ہے۔
بڑھتی ہوئی قیمتیں اس پرانی طرز پر استوار فوج میں جدت لانے میں سست سرمایہ کاری کی وجہ بن رہی ہیں۔ ہر کمزوری کو پُر کرنے کے لئے فوجیوں کی بھاگم بھاگ تعیناتی سے سرحدوں کی حفاظت نہیں کی جا سکتی۔

وسائل کی کمی ہندوستانی فوج کا ہمیشہ سے مسئلہ رہی ہے۔ دفاعی اخراجات کا تقریباً 75 فیصد معمول کے اخراجات جیسے پنشنز، تنخواہوں اور فورس کو برقرار رکھنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ 2020 میں، بھارت نے فوج پر تقریباً 73 ارب ڈالر خرچ کیے جب کہ اس کے مقابلے میں چین نے 252 ارب ڈالر خرچ کیے۔

"حقیقت یہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں اضافی بجٹ سپورٹ آنے کا امکان نہیں ہے"۔ ایک ریٹائرڈ فوج جنرل ڈی ایس ہوڈا جنہوں نے ہندوستان کی شمالی کمان کی قیادت کی، جس میں جزوی طور پر چینی سرحد بھی آتی ہے، نے کہا کہ آپ کو بہتر نگرانی کی ضرورت ہے۔ آپ کو دوسری طرف بہتر انٹیلیجنس کی ضرورت ہے۔ "ہم یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ چینی فوج ہر بار ہمیں یکایک آ لے اور ہماری تیاری مکمل نہ ہو۔"

1962 میں ایک بڑی جنگ کے بعد سے بھارت اور چین بات چیت اور معاہدوں کے ذریعے بڑے پیمانے کے تنازعات سے بچے ہیں۔ اچانک اشتعال کے واقعات ہوتے رہتے ہیں کیونکہ پاکستانی سرحد کے برعکس جہاں سرحدی حدود نقشوں پر واضح طور پر بیان کی جا چکی ہیں، بھارت اور چین 2،100 میل کی سرحد کی حد بندی پر متفق نہیں ہو سکے ہیں جسے لائن آف ایکچول کنٹرول کہا جاتا ہے۔ بھارتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کے چینی ہم منصب اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں، اور وہ سرحد کی غیر یقینی صورتحال کو ایک دباؤ کے ہتھیار کے طور پر رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

گذشتہ سال ہونے والی جھڑپیں بھارتی وزیر اعظم مودی کے لئے ایک دھچکہ تھیں، جنہوں نے چین کے ساتھ باہمی خوشحالی کا فارمولا اپنانے پر زور دیا ہے۔

باہمی تعاون نہ صرف مودی کو معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں مدد کرے گا بلکہ یہ تنازعات کے خطرے کے باعث وسائل کے بے جا استعمال سے بھی بچا سکے گا۔

جب سے مودی نے عہدہ سنبھالا ہے، دونوں ممالک کے رہنماؤں نے قریب 20 بار ملاقات کی ہے۔ 2017 میں 73 دن تک فوجوں کے آمنے سامنے کھڑے
رہنے کے باوجود انہوں نے ان کوششوں کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیا۔

شی جن پنگ کے تین ہندوستانی دوروں کے دوران، مودی نے ان کے ساتھ جھولے لیے اور انہیں تازہ ناریل پیش کیا۔ مودی کے چین کے پانچ دوروں میں سے ایک پر، 1970 کے دہائی کا بالی وڈ ساؤنڈ ٹریک بجاتے ہوئے چینی صدر نے ان کا استقبال کیا اور وزیر اعظم مودی تالیاں بجاتے اور مسکراتے رہے۔ معنی خیز طور پر گانے کے بول تھے "تو، تو ہے وہی، دل نے جسے اپنا کہا"۔

ہندوستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ وزیر اعظم مودی کے مقابلے میں قدرے محتاط رہی ہے، اور یہ 2000 کی دہائی کے وسط سے تیزی سے آگے بڑھتے چین کے خطرے سے خبردار کرتی رہی ہے۔ مشرقی لداخ میں بھارتی فوج خاص طور پر کمزور تھی، جہاں چین کو زمینی خدوخال کی بنیاد پر برتری حاصل ہے کیونکہ تبت کی سطح مرتفع میں فوجیوں کی نقل و حمل آسان ہے۔ اور پھر چین کی طرف انفراسٹرکچر بھی بھارت کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔
2006 سے اگلی ایک دہائی کے دوران، ہندوستانی حکومت نے اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کے لئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ اس نے ہزاروں میل کی سڑکوں کو سرحد کے قریب تعمیر کرنے کی منظوری دی، فوجی دستوں کی نئی ڈویژنز تیار کیں، یہاں تک کہ چین کے ساتھ سرحد کے لئے ایک پہاڑی سٹرائیک کور بنانے کا بھی حکم دیا۔

لیکن ہر معاملے میں، کاغذ پر بنائے گئے پرجوش منصوبے کم وسائل کی حقیقت سے دوچار ہوتے رہے۔ سڑک کے کچھ منصوبے نامکمل رہے ہیں۔ تمام بچتوں، کوششوں اور وسائل کو بہانے کے باوجود ماؤنٹین سٹرائیک کور کی تیاری درمیان میں روکنا پڑی۔ اس لئے نہیں کہ خطرہ ٹل گیا تھا، بلکہ اس لئے کہ بھارت کے پاس پیسہ نہیں تھا۔

رکاوٹوں کے باوجود، تاہم، چینی خطرہ بھارتی فوج میں جاری جدت کی طرف سفر کو تیز کر سکتا ہے۔ مودی نے پہلے ہی اپنی فوج، بحریہ اور فضائیہ کی صلاحیتوں کو مربوط کرنے کے عمل کو تیز کر دیا ہے جو کہ تھیٹرائزیشن کے طور پر جانا جاتا ہے جس سے اوورلیپس اور لاگت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مشرقی لداخ میں بڑھتے ہوئے خطرے نے کچھ نامکمل سڑکوں اور سرنگوں پر کام کو تیز کر دیا ہے۔

میجر جنرل بریندر سنگھ دھنوا کہتے ہیں کہ "یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اچانک ہو گئی ہو۔" ان کے مطابق "چینی کارروائی نے بنیادی طور پر کچھ ایسی سرگرمیوں کو تیزی سے مکمل کرنے پر مجبور کیا جو پہلے بھی ہو رہی تھیں۔"

بھارت کے حق میں ایک عنصر یہ جاتا ہے کہ اس کے فوجیوں کو بلندی کی لڑائی کا تجربہ ہے جو اس سرحد کے ساتھ مفید رہے گا۔

کئی دہائیوں سے بھارتی فوج پہاڑوں میں بڑی لاجسٹک کارروائیاں کرتی رہی ہے۔ یہ روزانہ سینکڑوں ٹن مال پاکستان اور چین کے خلاف 75 ہزار فوجیوں کے لئے اس بلندی پر لے جاتا ہے، بلکہ کئی سڑکیں بند ہونے سے پہلے موسم سرما کے چھ مہینوں کے لئے ذخیرہ بھی کرتا ہے۔ سیاچن گلیشیر پر، جسے دنیا کی چھت پر میدان جنگ کہا جاتا ہے، ہندوستانی افواج نے تین دہائیوں سے زائد عرصے تک پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی برقرار رکھی ہے۔

پچھلے سال کی جھڑپوں میں ہندوستان خوش نصیب تھا کہ کشیدگی گرم موسم میں بڑھی۔ اگر یہ ستمبر میں کسی وقت ہوتا تو ہمیں فوجوں کو ہوائی راستے سے لانا پڑتا۔ یہ واحد آپشن تھا، کیونکہ راستوں پر برف ہوتی ہے، 40 فٹ برف۔ یہ کہنا تھا اے پی سنگھ کا جو ایک ریٹائرڈ میجر جنرل ہیں اور لداخ میں لاجسٹک آپریشنز کی قیادت کر رہے تھے۔

لیکن بھارت کو دو محاذوں پر اپنی بڑھتی ہوئی موجودگی کو مسلسل برقرار رکھنے میں مشکل پیش آئے گی۔

دسیوں ہزار اضافی فوجیوں کو اچانک اس سرحد پر پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ اہلکاروں اور وسائل کو نہ صرف reserves سے بلکہ پاکستانی محاذ پر موجود یونٹوں سے بھی منتقل کیا جائے۔

دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے پر فوجوں کی تعیناتی نقل و حمل کے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ کرتی ہے۔ جنرل سنگھ نے کہا کہ اس کے لئے مخصوص فوجی ساز و سامان کی تقریبا 48 اشیا درکار ہیں۔

جنرل سنگھ کا کہنا تھا کہ "جب فوجی جوانوں کو یہاں لے جایا جا رہا تھا تو ایسا نہیں تھا کہ بس میں وہاں 15 دن کی گشت پر جا رہا ہوں، پھر واپس آ جاؤں گا اور اس کے لئے میں اپنا ایک ٹینٹ اپنی کمر پر باندھ کر چل پڑوں۔ سب کو پتہ تھا کہ وہاں جانا ہے تو پھر وہاں رہنا ہے۔ ملک کو اس کی معاشی قیمت چکانا پڑی ہے"۔