لاہور میں نہاری ملتی ہی کہاں ہے؟

لاہور میں نہاری ملتی ہی کہاں ہے؟
ہم اردو سپیکنگ لاہوریوں کے لئے دوہری مصیبت ہے۔ ایک تو ہمیں 'بریانی بنا آتی ہے' اس لئے کبھی بازاری پسند نہیں آتی۔ جو مرضی کر لیجئے، کچھ ہی اندر انڈیل دیکھیے۔ ہم نہیں پسیجنے کے۔ کراچی سے رشتہ دار آ کر کہتے ہیں یار یہاں بریانی کیوں ٹھیک سے نہیں پکائی جاتی؟ اب کیا کہیں؟ بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ اس سلسلے میں بحث سے گریز کرتے ہوئے تسلیم کر لیا جائے کہ ہاں بھائی ہمارے یہاں بریانی ٹھیک سے نہیں بنتی۔ آپ گھر پر کھانے کو تیار ہوں تو آپ سے اچھی بنا کر دکھا دیں گے۔ بازار والی کے ہم ذمہ دار نہیں۔

دوسرا مسئلہ ہے نہاری کا۔ اس بیچاری کا ایک تو پنجاب میں کوئی والی وارث ویسے ہی نہیں ہے۔ "اسّی وڈا گوشت نئیں کھاندے"۔ بندا پوچھے تمہیں بڑا گوشت نہیں کھانا تھا تو علیحدہ ملک کیوں بنایا؟ صاف صاف لکھا تھا معاشرتی علوم کی کتاب میں کہ ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اور 'مثال کے طور پر' بتایا گیا تھا کہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں جب کہ مسلمان اس کو کاٹ کر کھاتے ہیں۔ اب اگر آپ کو اسے کاٹ کر کھانا ہی نہیں تھا تو وقت سے منع کر دیتے۔ گائے کے گوشت کا انکار دو قومی نظریے کا انکار ہے۔ فواد چودھری صاحب سنا ہے PMDA کے تحت دو قومی نظریے کی مخالفت پر کوئی حد وغیرہ مقرر کر رہے ہیں۔ تجویز ہے کہ یہ بھی اعلان ہاتھ کے ہاتھ کر دیا جاوے کہ گائے کا انکار کرنے والا بھی کانگریسی شمار ہوگا۔

کراچی میں جہاں جاؤ، آدمی ملے نہ ملے، نہاری ضرور مل جائے گی۔ جیسے لاہور میں نان چنے روزانہ اس حساب سے پکائے جاتے ہیں کہ ایک معقول تخمینے کے مطابق سب کے سب بھگونے سڑکوں پر اوندھے کر دیے جائیں تو سارا شہر غوطے لگاتا پھرے۔ کراچی والے یہ کام سمندر سے بھی لے سکتے ہیں لیکن نہیں، نہاری میں ڈبکی ضرور لگائیں گے۔ اس لئے یہاں ہم کراچی کی بات نہیں کر رہے۔ وہاں صابر ہے، جاوید ہے، اور بھی کئی ہیں۔ سبھی اچھی بنا لیتے ہیں۔ لیکن لاہور میں لے دے کر کوئی چار یا پانچ ہی نہاری والے ہیں اور ان میں سے بھی ایک آدھ ہی نہاری بنا رہا ہے، باقی سب الو ہی بنا رہے ہیں۔ لہٰذا کبھی من ہو تو آدمی ڈھنگ کی جگہ سے تو کھائے، ورنہ فائدہ کیا؟ الٹا نہاری ہی بدنام ہوتی ہے کہ شاید اچھی بنتی ہی نہیں۔ جیسے بہت سے لاہوریوں نے بازار کی بریانی کھا کر دل میں سمجھ لیا کہ یہ کھچڑی میں مرچیں تیز کر دینے سے خود بخود بن جاتی ہے۔

تو ساتھیو، لاہور میں کل ڈیڑھ نہاری والے ہیں۔ ان کے علاوہ سب بہروپیے۔ وہ ڈیڑھ کون سے ہیں، آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔

کراچی نہاری اینڈ بار بی کیو

اول تو یہ ویسے ہی نہاری کی بے حرمتی ہے کہ اس کے گرد 100 میٹر کے دائرے میں کوئی اور پکوان بھی چنوا دیا جائے۔ اس نے نام ہی کراچی نہاری اینڈ بار بی کیو رکھ چھوڑا ہے۔ نام کراچی نہاری ہے لیکن آپ یقین کریں کراچی بھی اس سے بہتر ہے اور نہاری بھی ایسی نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو بہت ہی شدید نہاری آئی ہو تو دل میں اصلی نہاری کو یاد کر لیا کیجئے، اس میں بھی ثواب ہوتا ہے۔

Nihari


محمدی نہاری ہاؤس

یہ دکان لاہور کی معروف ترین مزنگ چونگی سے شروع ہوئی تھی۔ مالکان صحیح دلی والے ہیں۔ لیکن بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ لاہور آ کر انہوں نے نہاری کا کاروبار شروع کیا تو جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہاں یا تو نہاری چلے گی یا دکان۔ فیصلہ دکان کے حق میں ہوا۔ نہاری کا اصل ذائقہ مار دیا گیا۔ اس میں مصالحے ہلکے کر دیے گئے۔ دکان دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی گئی۔ بڑی ہوئی، نیچے بیسمنٹ میں بھی گھس گئی۔ اس میں بھی نہ سمائی تو لاہور میں جگہ جگہ کھلنے لگی۔ لیکن وہ نہاری نہیں تھی۔ وہ جون ایلیا نے کہا تھا نا۔۔۔

شہرِ تعبیر ہو گیا آباد، خواب بربار ہو گیا جاناں

کسی کو رستہ سمجھانے کے لئے بھی بتانا ہو تو یہی کہتا ہوں، وہ محمدی ہے نا، اسی سڑک پر آگے سیدھے چلتے جاؤ، قبرستان کے بیچ میں سے گلی نکلتی ہے، وغیرہ۔۔۔ میرے سے اسے نہاری نہیں کہا جاتا۔ محمدی ہی کہتا ہوں۔



وارث نہاری

یہ آدھی نہاری ہے۔ کسی زمانے میں کہتے ہیں پوری ہوتی تھی۔ لیکن پھر وہی پیسے کی چکا چوند کہیں یا کچھ بھی۔ اب وہ مزا نہیں رہا۔ ہاں پیسہ اخبار والی اصل دکان پر اب بھی سنا ہے کہ کبھی کچھ ایسے آثار ملے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمارت حسین تھی۔ لیکن وہ بھی بس اصل وارث نہاری، پیسہ اخبار والی۔



حاجی صاحب نہاری

یہ ہے لاہور کی اکلوتی نہاری۔ یہ بھی پاکستان بننے کے وقت سے ہی یہاں موجود ہے اور لاہور کی سب سے پرانی نہاری کی دکان ہے۔ اندرون لاہور لوہاری گیٹ میں واقع اس دکان تک رسائی تھوڑی مشکل ہے کیونکہ ظاہر ہے یہ اندرون لاہور ہے، یہاں کسی بھی چیز تک رسائی مشکل ہے۔ تنگ گلیاں، پیدل چلنے والوں کا رش اور پھر انہی تنگ سی سڑکوں پر دونوں اطراف میں کھڑی موٹر سائیکلیں۔۔۔ انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو حاجی صاحب نہاری والے سے بہتر نہاری اس شہر میں ملنے کی نہیں۔ ان کی ایک برانچ جیل روڈ پر بھی ہے، اندر ذرا گلی میں جا کر ہی ہے وہ بھی لیکن اس تک رسائی مشکل نہیں۔ ہاں مگر اس برانچ پر ذائقے میں وہ بات نہیں جو لوہاری والی میں ہے۔ یہ لاہور کے باقی تمام نہاری والوں کے مقابلے میں تھوڑے مہنگے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ لاہور میں کہیں نہاری اپنی ثِقّہ حالت میں میسر ہے تو وہ اسی جگہ پر ہے۔ باقی بس ہیر پھیر ہے۔

Haji-Nihari

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.