قاضی ایسا مبارک جیسا، مشکل ہے ہو دوبارہ پیدا

اس نے وہ راہ نہیں لی جو حکومت سے انہیں شاعری کے عوض سرکاری قیمت دلا دیتی بلکہ وہ راستہ اپنایا جس کی بھاری ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ وہ جس فضا میں دم بھرتا تھا وہاں کی زمین پر مسلح سیاسی تصادم پھوٹتے رہتے ہیں، نظریات پر قتل ہوتے ہیں اور آسیبی گمشدگیاں اگتی ہیں۔ وہ ناخوشگوار حالات کی پیداوار تھا۔

قاضی ایسا مبارک جیسا، مشکل ہے ہو دوبارہ پیدا

مبارک قاضی جو بلوچی زبان کا مقبول شاعر تھا، کراچی کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے، کسی بھی غیر بلوچ کو اگر نظر آتے، تو ان کے حلیے سے وہ اسے شپ یارڈ پر مال ڈھونے والا مزدور، یا جوڑیا بازار کا کوئی دیہاڑی دار محنت کش مکرانی کہہ کر پکارتا۔ بال، پیشانی سے اوپر زیادہ تر جھڑ چکے تھے۔ داڑھی سفید، پیچ دار اور بے ترتیب۔ گریبان کھلا ہوا۔ چہرہ مستقل مدہوشیوں کے نشان لئے ہوئے۔ نرم جلد کرخت ہو چکی تھی۔ پیشانی پر جھریاں۔ گھورتی آنکھیں فکرمند لگتی تھیں۔ وہ شاعر نہیں لگتے تھے۔

اب سے 12 سال پہلے 2011 میں کراچی کے بلوچی بولنے والے اکثریتی علاقہ لیاری میں بلوچی زبان کا دن منایا جا رہا تھا۔ فروری کا مہینہ تھا۔ جب زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ مبارک قاضی، جن سے فون پر کبھی کبھار بات چیت ہوتی رہتی تھی لیکن ملاقات پہلی مرتبہ فٹبال ہاؤس میں، سچکان پبلی کیشنز کی جانب سے منعقدہ مادری زبانوں کے دن پر ہوئی۔ یہ دن بعد میں یادوں میں رہ جانے والا دن بننے والا تھا۔ مبارک قاضی سے اس دن کے بعد پھر کبھی ملنا نہیں ہوا۔ بلوچ دانش ور صبا دشتیاری، جو بلوچستان یونیورسٹی کے استاد تھے، ان سے اس دن جو ملاقات ہوئی وہ بھی آخری ثابت ہوئی۔ اس پروگرام کے چار مہینے بعد وہ کوئٹہ میں شہید کر دیے گئے۔

پاکستانی کلچرل اسٹیبلشمنٹ بلوچ اور بلوچی کا فرق نہیں جانتی۔ جب وہ بلوچی کہتے ہیں، ان کا مطلب وہ زبان نہیں ہوتی جو بلوچ بولتے ہیں بلکہ اس سے ان کی مراد بلوچ عوام ہوتے ہیں۔ وہ اپنے پڑوس میں رہنے والی قوموں کی لسانی اور قومی شناخت کے درمیان فرق نہیں جاننا چاہتے۔ ان سے توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ مبارک قاضی کو ایک شاعر کی حیثیت سے پہچانتے ہوں گے۔ ان کی نظر اپنے نزدیک پروان چڑھنے والے ادب پر مغرب کے مشرق شناسوں کی تحقیق کے وسیلے یا ترجموں کے ذریعے پڑتی ہے۔ بلوچی ادب، بلوچوں کی طرح، محبوس ہے۔ وہ آزاد فضا میں سانس نہیں لیتا، جو بہتا ہوا ادب کے بڑے دھارے کا حصہ بن پائے۔

مبارک قاضی ایک شاعر تھا۔ ان کی موت پر گذشتہ چند دن میں بہت لکھا جا چکا ہے، میں مزید نہیں لکھنا چاہتا تھا لیکن وہ کسی شاعر کی موت نہیں مرا۔ اس کی وفات کے دن میں نے اپنی چھوٹی بیٹی، جو اپنے آپ میں مگن رہتی ہے، کو بھی سوگوار پایا۔ کیا کیا جائے؟

سید ظہور شاہ ہاشمی، جن کو بابائے بلوچی زبان کہا جاتا ہے، 'ان کو آخری آرام گاہ تک کتنے لوگوں نے پہنچایا ہوگا؟' عطا شاد بلوچی زبان کے بڑے شاعر شمار ہوتے ہیں۔ بلوچی ادب کے استاد اے آر داد کو حیرت ہوتی ہے جب انہیں اس بڑے شاعر کی دائمی آرام گاہ ڈھونڈنے میں وقت لگتا ہے کہ کوئٹہ میں وہ، عطا شاد، کس مقام پر کہاں دفن ہیں جبکہ مبارک قاضی کی موت کی خبر ایک بڑا افسوس ناک حادثہ بن کر پھیلی۔ اپنی موت کے دن وہ ایک غیر متنازعہ رہنما بن چکا تھا، وہ رہنما جس کے بارے میں دو رائے کا شکار نہیں ہوا جاتا۔ اس کی موت پر سوگ کی لہر بے مہار تھی، ہر ایک غم اور ماتم داری کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔

بلوچی، شاعری کے میدان میں دیگر زبانوں کی طرح ایک زرخیز زبان ہے اور مبارک قاضی اس زبان کا ایک مقبول شاعر تھا۔ اس کے ادبی قد کاٹھ کا تعین بلوچی ادب، شاعری اور ادبی تخلیقات سے دلچسپی رکھنے والوں کا معاملہ ہے۔ وقت اس کا فیصلہ کرے گا البتہ اس کی شخصیت کی عوام میں کتنی بڑی اہمیت تھی، اس کا اندازہ گذشتہ چند دنوں میں لگایا جا چکا ہے۔ یہ عوامی شخصیت ان کی شاعری سے بڑی نظر آئی۔ ہر منفرد تخلیق کار، بڑے شاعر اور رجحان ساز ادیب کی موت اپنے وقت اور اس زمانے کے ثقافتی اور لسانی ضیاع میں شمار ہوتی ہے جبکہ مبارک قاضی کی موت کو ایک قومی سانحہ کے طور پر دیکھا گیا۔ وہ سانحہ جو فضا کو سوگوار کر دے۔

مبارک قاضی بڑا کیسے بنا؟

سفید پوشی کا کھیل جو اکثریت کھیلتی ہے، وہ نہیں کھیلا۔ اس کھیل کی قیمت بھی ادا نہیں کرنا پڑتی۔ اس بہاؤ میں بہتے جاؤ، جس میں سب بہہ رہے ہوتے ہیں۔ ان لہروں پر تیراکی کرو، جن پر اکثریت سواری کر رہی ہوتی ہے۔ اس گند میں ہاتھ دھو لو، جس میں سب دھوتے ہیں۔ اپنے منہ پر کالک مل لو جیسا کہ دوسرے کر رہے ہوتے ہیں اور انعام و داد و تحسین کی بارش میں دھل کر سفید پوش کہلاؤ۔ اس نے دوسرا، اپنی من مرضی کا فطری راستہ اپنایا۔ وہ راہ نہیں لی جو انہیں، حکومت سے ان کی شاعری کے عوض، سرکاری قیمت دلا دیتی بلکہ وہ راستہ اپنایا جس کی بھاری ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس نے ادا بھی کی۔ وہ جس فضا میں دم بھرتا تھا وہاں کی زمین پر مسلح سیاسی تصادم پھوٹتے رہتے ہیں، نظریات پر قتل ہوتے ہیں اور آسیبی گمشدگیاں اگتی ہیں۔ وہ ناخوشگوار حالات کی پیداوار تھا۔

ناسازگار ہوائیں جب چلتی ہیں، ان کا سامنا کرنے کا ایک ناگفتہ، احتیاط پسندانہ قانون بن جاتا ہے۔ ہر کس و ناکس رواج کے مطابق ان کا سامنا پھونک پھونک کر کرتا ہے۔ قاضی ان ہواؤں کے زور کا مخالف، بے راہرو بن گیا اور اس کی مخالف سمت چلتا گیا۔ اس نے رواج یافتہ راہ ترک کی۔ جاہ طلب نفاست پسندوں نے اس مقبول کج روی کی مذمت بھی کی ہو گی۔ الغرض اس کی موت پر ماتم، سوگ اور غم کے ماحول کا بیان قاضی کو جاہ طلب نفاست پسندوں سے بہتر اور برتر ثابت کر رہا تھا۔ وہ جس کی پشت پر بڑی عوامی حمایت موجود تھی۔ یہی باغیانہ کردار اس کی پہچان بنا۔ جس نے اس کے کردار کو محض شاعر ٹکے رہنے کے بجائے اس سے بڑا بنا دیا۔

وہ بلوچی کے اکیلے انقلابی شاعر نہیں تھے۔ شاعر، وہ جو سیاست سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں، جب تخلیق کی تکلیف کے بستر پر رات بھر درد سے کراہتے ہیں، صبح انقلابی شعر جنتے ہیں تا کہ سیاسی خواہشات کی مخالفت کا الزام دامن پر نہ لگے۔ یہ ناخوشگوار فضا یا حالات کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ روشن مستقبل کے محض خوابوں کیلئے انقلابی شعر جننے والوں پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانا سستا مشغلہ ہے۔ ان میں سے بعض اپنی انقلابی تخلیق کی اوقات کی قدر و قیمت وصول کریں گے اور سستے ماضی پر، اس کی قیمت وصول ہونے کے بعد، پشیمانی کے آنسو بہائیں گے۔ قاضی مختلف تھا۔ اس نے داد نہیں پائی۔ بھاری ادائیگی کی۔ وہ اپنے بڑے پن کی بدولت یاد رکھا جائے گا۔ بلوچ معاشرہ انقلاب اور تبدیلی کی امید کی کشمکش کی ثقافت سے واقفیت رکھتا ہے۔

مبارک قاضی کیسا تھا؟

نوٹ: یہ سوال عام سے فرد سے کیا جائے۔ جواب دینے والے کا تعلیم یافتہ، ادیب، شاعر ہونا ضروری نہیں۔

ایک جواب دہندہ یاد آوری کرتے ہوئے، اپنی یادداشت میں سے ایک مثال ڈھونڈتے ہوئے کہتا ہے، 'قاضی ان لوگوں سے، ملاؤں سے بھی نہیں ڈرتا تھا، جن سے آزادی کے بندوق بردار ڈرتے ہیں'۔ 'اگست کا پہلا ہفتہ تھا'، جواب دینے والا عام سا شخص ہمیں بتاتا ہے کہ 'تربت میں توہین رسالت کے الزام پر ایک مقامی ٹیچر، رؤف برکت کا قتل ہوتا ہے۔ ملاؤں کیلئے وہ، ذکری برادری سے تعلق ہونے کے باعث، آسان ہدف تھا'۔ اس نے قاضی کو کیسے دیکھا، ہمیں بتائے جا رہا ہے، 'رؤف برکت خود ساختہ جرگہ میں اپنے اوپر لگنے والے الزام کی وضاحت دینے جا رہا تھا، جو اس کے ایک کمسن طالب علم نے اس پر لگایا تھا۔ کمزور ذکری کی صفائی مذہبی بنیاد پرست کیسے قبول کریں؟ کون سا مُلا ذکری برادری کے کمزور ہدف کو زندہ رہنے کا موقع دے کر، اپنی دہشت جمانے کا مناسب موقع ضائع کر دے؟' ہم کہتے ہیں، سیکولر بلوچوں نے احتجاج کیا تو سہی؟ 'ہاں کیا، بہت ہلکا، احتیاط کے ساتھ، جیسے کوئی کسی کی ناراضگی سے ڈرتا ہو، ایسے۔ وہ شور شرابہ نہیں ہوا جو ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ بس احتجاج کی خانہ پوری کی'۔ وہ ہمیں مزید کہنا چاہتا ہے، 'قاضی، مبارک قاضی نے، ان ملاؤں کو، جن پر قتل کا الزام لگا، بے خوفی سے للکارا، ان کو ان کی اوقات یاد کرا دی، لعن طعن کی اور ان کو چیلنج کیا۔ قاضی نے ہمارا دل خوش کیا'۔

'قاضی ایسا تھا، نا ترساں، نہ لرزاں'۔ جواب دہندہ نے اپنی بات پوری کی۔

رزاق سربازی کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں۔