عمران خان کو ایک سیاسی مسیحا کے طور پر پیش کرنے کے عمل کا آغاز 2011 میں ہوا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ عمل نیک نیتی سے کیا جا رہا ہے۔ موروثیت اور افراتفری کا شکار سیاست کے حوالے سے غم و غصہ پہلے سے موجود تھا۔ کرپشن نے نظام میں پنجے گاڑے ہوئے تھے اور ایک نئی شروعات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔
عمران خان 1996 میں اپنی سیاست کے آغاز سے ایک غیر اہم سیاسی کھلاڑی رہے تھے اور جمے جمائے سیاستدانوں پر کوئی آنچ لانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ لیکن ان کے پاس سب کچھ تھا: شخصیت کا طلسم، پاک و صاف شہرت، سیاسی اصلاحات کا نعرہ اور کانوں کو بھلی لگتی اخلاص و عزم سے بھری باتیں۔ اگر انہیں کچھ چاہیے تھا تو ذرا سا موقع۔ لوگ خان کو ملک کے واحد بین الاقوامی سیلبریٹی کی حیثیت سے پہلے سے ہی سراہتے تھے۔ وہ طویل القامت بھی تھا، وجیہ بھی اور اپنے ہم عصر افراد میں منفرد بھی۔ لیکن نظام میں تبدیلی کے خلاف مزاحمت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھی۔ بالآخر 2018 میں 'تبدیلی' کو موقع مل گیا۔
خاصی رسہ کشی کے بعد ایک 'ہائبرڈ حکومت' کا قیام عمل میں لایا گیا، جسے اس کے تخلیق کار ایک طویل المدتی منصوبہ کے طور پر دیکھتے تھے۔ اس منصوبے کی مدت اگلے دس سال رکھی گئی۔ کچھ غلط ہو جانا ممکن بھی کہاں تھا؟ گذشتہ دہائی کے دوران 'امیج بلڈنگ' کے عمل نے پہلے سے ہی خان کے بارے میں 'بلند و بالا' بیانیے کو پوش شہری اور مڈل کلاس افراد کے دل و دماغ میں راسخ کر رکھا تھا۔
راست بازی یا صالحیت سے بھرپور اور روایتی سول سیاست سے بیزاری سے لبریز طریقۂ کار ہائبرڈ نظام کی جڑوں میں پیوست تھا۔ ایک نئے سیاسی نظام نے پہلی بار طاقت کا مزہ چکھا جس میں ایک عجیب سا نشہ تھا۔
لیکن آغاز ہی لڑکھڑاہٹ کا شکار ہو گیا اور ناتجربہ کار گروہ ڈانواں ڈول ہونا شروع ہو گیا۔ خان کی بلند و بانگ گفتگو اور اصولوں کی سیاست کا وعدہ چالاکی و عیاری کی نذر ہوا۔ حلیف دھتکارے جانے اور تحقیر کا شکار نظر آئے۔ اندرونی گروہ نہایت طاقتور اور جوابدہی سے بالاتر ہوتا گیا۔ وہ ایسے 'انَ ٹچ ایبلز' میں تبدیل ہو گیا جن پر سوال اٹھایا نہیں جا سکتا۔
خان نے ریاستی مراعات و رتبے کے نتیجے میں ملنے والی طاقت کا لطف لینا شروع کر دیا، اور سپورٹس مین سے سیاستدان میں تبدیل ہونے والا وہ طلسمی کردار جو خاموش اکثریت کے دکھ و ناراضی کو سمجھتا اور اسے آواز فراہم کرتا تھا یکایک منظر سے غائب ہو گیا۔ یوں اک بے ربط خلا نمودار ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ کاسموپولیٹن سٹار بہت پہلے منظرسے جا چکا تھا۔ اس کی جگہ ایک نئی پہچان کی تشکیل کی جانے لگی جس کی بنیادیں قدامت پسندی اور مذہبیت پر مبنی نرگسیت کے رویوں میں تھیں۔ عمران کو اب خان صاب کے طور پر جانا جانے لگا جس میں پرتقدس تحکم در آیا۔ ان کی وجاہت کچھ اور بھی نمایاں ہو گئی جس میں وہ یونیفارم میں ملبوس افراد میں گھرے رہتے۔
'یس مین' قسم کے یہ افراد عوامی امورمیں دلچسپی سے مبرّا تھے اور خان نے ان افراد کے متکبرانہ طور طریقوں کو پسند اور انِ کی خوصلہ افزائی کی۔ سیاسی دشمنی نے دیگر تمام ریاستی امور کی اہمیت کو گہنا دیا اور پراپگینڈا کو کامیابی اور تنقید کو دشمنی سے تعبیر کیا جانے لگا۔ سیاسی مخالفت اور ذرائع ابلاغ کو دبانے، کچلنے کی جستجو نے باقی ہر شے کو نظرانداز کرنے پر مجبور کر دیا۔
اس تمام عرصے میں حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی بے مثال حمایت حاصل رہی اور نئے انتظام کو چلانے کے لئے تمام تر ذرائع کا استعمال کیا گیا۔ لیکن اندرونی تضادات جلد ہی منظرعام پر آنے لگے۔ معاملے کی سطحی سمجھ اور ریاست کے نازک معاملات برتنے میں اسی طرح کے طرزعمل نے اس نظام کی ساخت کو توڑنا شروع کیا۔
تخلیق کار اس معاملے کو مایوسی اور حیرت کی کیفیت میں دیکھتے رہے۔ ان کا چنیدہ فرد صرف ذاتی عروج کا خوہاں تھا۔ اور ہر طرح کے احتساب سے بالاتر اس شخص کا وزن اب پورے نظام کو اپنے کاندھوں پر اٹھانا پڑ رہا تھا۔ اندرونی و بیرونی دونوں ہی محاذوں پر بلند و بانگ بیانیے صرف دشمن کو زیر کرنے کی نیت سے بنائے گئے تھے۔ یہ طرز عمل متکبرانہ رویے اور ذاتی ستائش سے بھرپور تھا۔ اور تو اور، چھوٹے موٹے حواریوں کا بھی یہی انداز تھا۔
سب سے زیادہ تشویش کی بات تو یہ تھی کہ یہ لیڈر اسی اسٹیبلشمنٹ کو کچلنے اور پارہ پارہ کرنے کے درپے تھا جو اسے منظر عام پر لے کر آئی تھی۔ اور پھر دوری بنانا اور 'غیرجانبدار' ہونا مجبوری بن گیا۔ لیکن ایسا کرنے میں پوشیدہ خطرات اور نتائج کا اندیشہ موجود تھا۔
بالآخر کچھ گنجائش نظر آئی اور اولڈ گارڈ کو کھیل ذرا کھل کر کھیلنے کا موقعہ ملا جس کا پورا فائدہ اٹھایا گیا۔ لیکن عوام کی نظر میں اولڈ گارڈ مطعون اور داغ دار ٹھہرا۔ خان اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود بھی ان سے بہتر ٹھہرا جنہیں کرپٹ اور اخلاقی تنزلی کا شکار بتایا گیا تھا۔ اس سے بہت سوں میں اختلاف رائے پروان چڑھا۔ خان نے 'سازش کارڈ' بڑی مہارت سے کھیلا اور اصولوں سے ہٹ کر کھیلتے ہوئے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا۔
کئی درمیانے درجے کے اور سینئر سابق افسران نئی حقیقت کا سامنا نہیں کر پا رہے تھے۔ طاقت اور اثرورسوخ کو یوں اچانک ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر وہ غصے اور بے چینی میں مبتلا تھے۔ اور 2018 میں تشکیل دیے جانے والے اس دس سالہ منصوبے کے یوں منہدم ہو جانے پر بے یقینی اور شکست و ریخت کے جذبات قابل فہم تھے۔ انہوں نے سب سے بلند مقام کا نشانہ لیا اور بدکلامی و بدتمیزی کا ایک طوفان بھی ان کے ہمراہ ہو گیا۔
ظاہر ہے کہ وفادار افراد اپنی آواز کو بلند سے بلند تر کرنے، سماجی میڈیا کے ذرائع کو استعمال کرنے اور اس ضمن میں نظر کا دھوکہ دینے پر کمربستہ تھے۔ اندرونی خلفشار بڑھتا گیا اور خلیج گہری ہوتی گئی۔ صفوں میں ناراضی کا عنصر ناممکن نہیں رہا۔ مزید یہ کہ ایسی افواہوں اور دھمکیوں کو جان بوجھ کر اور بتدریج بڑھایا گیا۔
یہ سب کچھ بے دھڑک اور ڈھٹائی کے ساتھ کیا جانے لگا۔ اس خطۂ زمین کے سب سے طاقتور فرد کی حاکمیت پر یوں سوالیہ نشان نہیں اٹھایا گیا تھا۔ اس صورتحال نے یوں بھی ایک مشکل پیدا کی کہ 'رسپانس' سوچا سمجھا اور 'کیلکیولیٹڈ' تھا۔ 'مزاحمت کاروں' کو طاقت سے قابو کرنا ممکن تھا لیکن قباحت یہ تھی کہ طاقت کے زیادہ استعمال سے یہی طاقت گھٹ بھی جاتی ہے۔
اور اپنوں پر ہی اس کے استعمال سے دراڑیں مزید بڑھ جاتیں۔ اس کھیل میں کوئی تو پہلے آنکھ جھپکے گا اور تھک جائے گا۔ ہمیشہ برقرار رہنے والے عین ممکن ہے کہ اب بھی برقرار ہی رہیں گے لیکن اس معاملے میں غور و فکر ضروری ہے۔ پروجیکٹ کے انہدام کا انداز اور رفتار دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا ملبہ نقصان دہ اجزا اور بدبو سے بھرپور ہے اور پاور گیم میں شریک تمام افراد کے بارے میں ایک منفی تاثر چھوڑتا ہے۔
سلمان مسعود کا یہ تجزیہ The Nation میں شائع ہوا تھا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔