صحافیوں کا کشمیریوں سے بیہودہ مذاق

صحافیوں کا کشمیریوں سے بیہودہ مذاق
تحریر: (مرزا یاسر رمضان جرال) 24 اگست کو ایک خبر کی شہ سرخی جو میری نظر سے گزری وہ کچھ یوں تھی کہ

"آزادکشمیر اور پاکستان کے صحافیوں کا ایل او سی کی جانب مارچ"

اس خبر کو پاکستان کے متعدد خبر رساں اداروں نے اپنی ویب سائٹس اور سکرینز کی زینت بنایا لیکن مجھے یہ خبر پاکستان کے معتبر کہلائے جانے والے میڈیا ہاؤس "ایکسپریس نیوز" کی ویب سائٹ پر نظر آئی۔ اس شہ سرخی کی تفصیل میں لکھا تھا کہ سینٹرل یونین آف جرنلسٹ کی اپیل پر پاکستان اور آزاد کشمیر کے صحافیوں کا مارچ ایل او سی کی جانب جائے گا اور بھارتی فوجی چوکیوں کے سامنے دھرنا دے گا۔ اس مارچ کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کے خلاف آواز اٹھانا اور بھارت کے مظالم کو بے نقاب کرنا بتایا گیا۔

خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ صحافی مظاہرین کھانے پینے کی اشیا اور ادویات بھی اپنے ساتھ لے کر چکوٹھی روانہ ہوئے ہیں۔ صحافی مظاہرین کا یہ مطالبہ ہے کہ انٹرنیشنل ریڈ کراس کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کو ایل او سی سے مقبوضہ کشمیر بھیجے، جہاں کئی روز کے کرفیو اور مکمل لاک ڈاؤن کیوجہ سے خوراک اور ادویات کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔

یہ وہ تمام باتیں تھیں جنہوں نے بطور صحافت کے طالبعلم کے میرا سینہ چوڑا کر دیا، میں خوش تھا کہ ایسے اقدام سے عالمی سطح پر کشمیریوں کی آواز کو مؤثر انداز میں پہنچانے اور مودی سرکار کے مظالم کو بے نقاب کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ خبر پڑھنے سے قبل بھی مجھے سوشل میڈیا پر اس مارچ کی اطلاع مل چکی تھی۔ ایک عزیز دوست جو کہ خود صحافی ہیں اور تعلق آزاد کشمیر سے ہے، انتہائی جوش و خروش سے بجانب چکوٹھی روانہ تھے۔ جوں جوں وہ منزل کی جانب بڑھ رہے تھے ان کے جذبے کا اندازہ ان کی فیس بک پوسٹس سے ہورہا تھا۔

رمیز بیگ آزاد کشمیر کے شہر کوٹ جیمل کے رہائشی ہیں، جہاں ان کا گاؤں کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لائن پر واقع ہے، بقول ان کے گولیوں اور گولوں کی آواز ان کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے بلکل ایسے ہی جیسے کسی مصروف سڑک کے کنارے رہنے والوں کے لیے گاڑیوں کا شور۔ رمیز جامعہ گجرات میں میرے کلاس فیلو تھے جہاں ہم نے چار سال تک صحافت کی تعلیم حاصل کی۔ رمیز آجکل سرگرم صحافی ہیں، ملکی اور غیر ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور بالخصوص کشمیر کی تاریخ اور صورتحال پر۔ یہی وجہ ہے کہ صحافیوں کی تنظیم نے لائن آف کنٹرول کی جانب مارچ کا اعلان کیا تو وہ بھی اس مارچ میں شرکت کے لیے کوٹ جیمل سے 370 کلو میٹر دور چکوٹھی پہنچ گئے۔

ادھر میں اپنے دفتر میں بیٹھا میڈیا ہاؤسز کی سکرینوں اور ویب سائٹس پر تلاش کر رہا تھا کہ صحافیوں کی یہ ریلی کہاں تک پہنچی؟ اس میں کتنے لوگ ہیں؟ کون کون سا بڑا صحافی اس ریلی میں شامل ہے؟ کیا سیاسی لوگ بھی آئے ہیں کہ نہیں؟ جو لوگ مارچ میں موجود ہیں ان کا جذبہ کیسا ہے؟ سامان اور ادویات کے کتنے ٹرک ہیں؟ کیا سلامتی کونسل کے نمائندے بھی مارچ دیکھنے آئے ہیں؟ انٹرنیشنل ریڈ کراس کے کتنے رضا کار سامان وصول کریں گے اور وغیرہ وغیرہ۔ میرے ان تمام سوالوں کے جواب رمیز کے پاس موجود تھے لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔

رات تک کسی خبر رساں ادارے نے بھی اس مارچ کی کوئی خبر نہ دی تو میں یہ سوچنے لگا کہ اس دھوم دھام سے نکلنے والی مارچ کو میڈیا کوریج کیوں نہیں دی جارہی، کہیں اس میں حکومت کی کوئی بدنیتی تو شامل نہیں۔ اپنے ان خدشات کا ذکر اپنے ساتھی صحافیوں سے بھی کیا لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ بس پھر میں انتظار کرنے لگا کہ رمیز سے رابطہ ہو تو کچھ معلومات ملیں۔

25 اگست کو شام کے وقت رمیز سے رابطہ ہوا تو مارچ سے متعلق میرے سوال پر ان کا پہلا فقرہ تھا کہ

"یار میں اب مایوس ہو گیا ہوں، یہ سب مفاد پرست لوگ ہیں انہیں اپنی نمود نمائش سے غرض ہے اور کشمیر کا مسئلہ ان کی شہرت کا ایک ذریعہ"

یہ سب سن کر میں حیران ہوا کہ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ میرا ایک متعدل اور مثبت نظریات کا مالک صحافی دوست اس قدر مایوس ہے۔ خیر سوالوں اور جوابوں کا سلسلہ شروع ہوا تو مارچ کو لے کر جو معلومات حاصل ہوئیں وہ کچھ یوں تھیں کہ صحافیوں کی تنظیم سینٹرل یونین آف جرنلسٹ نے مارچ کی کال دی اور صبح ساڑھے نو بجے سب کو چکوٹھی پہنچنے کی ہدایت کی۔ یہ مقام ایل او سی سے صرف دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ رمیز بوقت مقرر چکوٹھی پہنچ چکے تھے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد جو پہلا خیال ان کے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ کہیں چکوٹھی میں بھی تو کرفیو نہیں لگا دیا گیا۔ لیکن اس خیال کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مقامی افراد اور مارچ کے منتظمین سے رابطے کے بعد کوٹ جیمل سے آئے احتجاجی کو پتا چلا کہ جس مارچ کو ایل او سی پر بھارتی فوجی چوکیوں کے سامنے دھرنا دینا تھا اس نے چکوٹھی سے 20 کلومیٹر پیچھے چناری کے مقام پر ہی پنڈال سجا لیا ہے۔



کشمیریوں بہنوں بھائیوں کے غم میں پریشان رمیز بیگ چکوٹھی سے چناری پہنچے تو سامنے کا منظر اور بھی حیران کن تھا۔ ایک میدان میں تقریباَ 200 لوگوں کا ہجوم، چند بانسوں کی مدد سے کھڑے 2 شامیانے جن کے نیچے کرسیاں لگی تھیں اور سامنے ایک سٹیج سجا تھا۔ سٹیج پر چند گنتی کے صحافی تھے جو گلے میں پھولوں کے ہار پہنے یوں بیٹھے تھے جیسے ابھی ابھی مودی کو شکست فاش دے کر آئے ہوں۔ تخت نشینوں میں افضل بٹ، رانا عظیم، ظفیر بابا اور دیگر نامی گرامی صحافی شامل تھے۔ جن کا حوصلہ بڑھانے کے لیے پیپلزپارٹی کی ایم ایل اے شاہین کوثر بھی آئیں۔





ان تمام مہمانان مارچ (جو بعد میں محفل میں بدل گئی) نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے آزاد کشمیر کے باسیوں سے اپنے حق میں نعرے لگوائے اور تالیاں بجوائیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ بھی لگوایا لیکن اس کو سننے کے لیے وہاں یو این سیکیورٹی کونسل کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ ایکسپریس نیوز کی خبر میں کھانے پینے کی جن چیزوں اور ادویات کا ذکر تھا وہ بھی دور دور تک نظر نہیں آئیں، اچھا ہوا انٹرنیشنل ریڈ کراس کے رضاکار وہاں نہیں پہنچے نہیں تو انہیں بھی خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑتا۔

ایل او سی سے 22 کلو میٹر پیچھے محفل سجانے سے بھارتی فوجیوں کو بھی سکون کی نیند سونے کا موقع مل گیا، نہیں تو ان کی نیندیں بھی حرام ہو جاتیں۔

کوٹ جیمل کا صحافی جو عالمی برادری کا ضمیر جھنجوڑنے کے لیے اس مارچ میں 370 کلومیٹر کا سفر طے کر کے پہنچا تھا، اپنے ضمیر پر بوجھ ڈال کر واپس آگیا کہ میں کس بے حس معاشرے کا حصہ ہوں جہاں بہنوں بھائیوں پر ہونے والے ظلم کو بھی "کیش" کیا جاتا ہے۔

بقول رمیز بیگ کہ ایل او سی کی جانب مارچ صحافیوں کا کشمیریوں سے ایک بیہودہ مذاق تھا۔

لکھاری نے جامعہ گجرات سے میڈیا سٹڈیز میں تعلیم حاصل کی ہے اور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔