استغاثہ کا کیس مشکوک ہے، رانا ثناء اللہ کی ضمانت سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری

لاہور ہائیکورٹ نے ممبر قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ کی ضمانت سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔


سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کی درخواست ضمانت کا فیصلہ 9 صحفات پر مشتمل ہے جسے جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے جاری کیا ہے۔

تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ رانا ثناء اللہ کے شریک ملزم کی ٹرائل کورٹ میں ضمانت ہو چکی ہے، استغاثہ نے شریک ملزموں کی ضمانت منظوری کو ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں کیا۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ رانا ثناء اللہ پر 15 کلو ہیروئن رکھنے کا مقدمہ بنایا گیا لیکن ان کا جسمانی ریمانڈ ہی نہیں لیا گیا۔

https://twitter.com/AsadAToor/status/1210149331585716225?s=20

فیصلے کے تحریر کنندہ جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے ریماکس دیے کہ 'ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے کہ پروسیکیوشن کے کیس میں خامیاں موجود ہیں مثلاً برآمدگی کے موقع پر ریکووری میمو تیار نہ کرنا، مدعی کے منشیات اسمگلنگ نیٹ ورک سے منسلک ہونے کے بارے میں تفتیش نہ ہونا اور درخواست گزار سے مبینہ درآمد شدہ 15 کلو ہیروئن میں سے صرف 20 گرام بھیجنا بادی النظر میں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ درخواست گزار پر لگے الزام کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے اور یہ کیس مزید تفتیش کا متقاضی ہے'۔

تحریری حکم کے مطابق 'راوی ٹول پلازہ لاہور میں رانا ثنا اللہ کی آمد کے بارے میں اطلاع ملنے کے بعد 21 رکنی چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی گئی۔ اس وقت رانا ثنا اللہ اپنے گن مین (تعداد میں پانچ) کے ہمراہ ٹول پلازہ پر روکے گئے اورچھاپہ مار ٹیم نے ان سب کو غیر مسلح کردیا'۔

حیرت انگیز طور پر لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مبینہ طور پر منشیات برآمد ہونے پر جائے برآمدگی پر کوئی ریکوری میمو تیار نہیں کیا گیا بلکہ ملزمان اور کیس پراپرٹی کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا جہاں ضروری دستاویزی کارروائی کی گئی۔ عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر میں یہ بھی بتایا گیا کہ درخواست گزار (رانا ثنا اللہ) کے گین مین نے زور زبردستی سے درخواست گزار کو بچانے کے لیے چھاپہ مار ٹیم ٹیم کے ساتھ ہاتھا پائی کی لیکن ان پر قابو پا کر غیر مسلح کردیا گیا۔

تفیصلی فیصلے کے مطابق 'وقوعہ کی جگہ پر دستاویزات کی تیاری نہ کرنے کے بارے میں وضاحت پیش کی گئی کہ راوی ٹول پلازہ سے گزرنے والی گاڑیوں جمع ہونا شروع ہوگئی تھیں، جس کی وجہ سے ملزمان کے علاوہ گاڑیوں سمیت تمام چیزوں کو بھی پولیس اسٹیشن لایا گیا۔"

جسٹس مشتاق احمد نے کہا کہ جب اگلے روز ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا تو تفتیشی افسر نے موجودہ درخواست گزار (رانا ثنااللہ) کی نگرانی میں مبینہ طور پر چلنے والے نیٹ ورک کی تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا نہیں کی۔ عدالت نے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ رانا ثنااللہ کے وکلا کہتے ہیں کہ یہ منشیات کی برآمدگی کا مقدمہ انہیں حکومت پر تنقید کی وجہ سے بنایا گیا۔

تاہم عدالت نے کہا کہ ضمانت کے کیس میں ایسے دلائل کو اہمیت نہیں دی جاتی لیکن ہمارے ملک میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا حقیقت ہے اور اس پہلو کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔

رانا ثنااللہ کے معاملے میں کب کیا ہوا؟


پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔ اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔

ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

گرفتاری کے بعد رانا ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا تھا، جس میں کئی بار توسیع ہو چکی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا بھی مسترد کردی تھی۔

علاوہ ازیں رانا ثنااللہ نے ضمانت پر رہائی کے لیے لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 20 ستمبر کو عدالت نے دیگر 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی لیکن رانا ثنااللہ کی رہائی کو مسترد کردیا۔

بعد ازاں 6 نومبر کو انہوں نے نئے موقف کے ساتھ انسداد منشیات کی عدالت سے ضمانت کے لیے ایک مرتبہ پھر رجوع کیا تاہم 9 نومبر کو اس درخواست کو بھی مسترد کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکے کے عوض ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔