Get Alerts

بلوچ لانگ مارچ، پنجابیوں کی بے خبری اور خلائی مخلوق کے ایجنٹ صحافی

ریاست کو خطرہ ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین جو لانگ مارچ کر کے اسلام آباد آئے ہیں اور وہاں ریاستی جبر کی داستانیں سنا رہے ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہر پنجابی جاگ جائے اور وہ بھی ریاست سے ایسے ہی بہادری کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنے لگ جائے۔

بلوچ لانگ مارچ، پنجابیوں کی بے خبری اور خلائی مخلوق کے ایجنٹ صحافی

ریاست نے پنجابیوں کو بحیثیت قوم پاکستان میں باقی تمام اقوام میں سب سے زیادہ جاہل، بے سدھ اور غلام رکھا ہے۔ اب جب پنجابی کو ریاستی جبر و ظلم کا صرف ایک فیصد پتہ چلا ہے تو ریاستی اداروں کو جیسے آگ لگ گئی ہے۔ ریاست نے ہمیشہ پنجابی کو غزوہ ہند کے خواب دکھائے اور خود سارا کا سارا مشرقی پاکستان گنوا دیا۔

ریاست کو خطرہ ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین جو لانگ مارچ کر کے اسلام آباد آئے ہیں اور وہاں ریاستی جبر کی داستانیں سنا رہے ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہر پنجابی جاگ جائے اور وہ بھی ریاست سے ایسے ہی بہادری کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنے لگ جائے۔ اسی لیے اب صحافت کی آڑ میں ریاستی ایجنٹ بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ بھیجے جا رہے ہیں تا کہ وہ پنجابیوں کو مزید جہالت کے انجکشن لگاتے رہیں۔

ریاست یہ تو جان چکی ہے کہ اب پشتونوں کے خریدے گئے مشر اور بلوچوں کے سرداروں کے ذریعے بات نہیں بن رہی، نا ہی سندھی جیے بھٹو پہ راضی ہیں۔ اس لیے پنجاپی کے پاس بچا ایک ریاستی میڈیا ہے جہاں پنجابی کو ڈرا دھمکا کر اس سے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کروائی جاتی ہے۔ اب یہ میڈیا کے چند لفافی خلائی مخلوق کے بھیجے گئے سوالات اٹھا کر لاپتہ بلوچوں کے پاس جا رہے ہیں اور صحافت کے نام پر 90 فیصد نیم بیدار پنجابیوں کو پھر سے شدید نیند میں سلانے کیلئے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ حبیب جالب کے 'جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا' کہنے پر بھی پنجاب نہیں جاگ سکا تھا۔

اب جب ریاست کی طرف سے جبری گمشدگی کا سیلاب، مارو پھینکو اور ویگو ڈالے کا کلچر پنجاب کی ناک تک پہنچ چکا ہے اور بلوچ ماؤں کی چیخیں، پشتون نوجوانوں کی آہیں اور سندھی، کشمیری و گلگت بلستان سے جبر کی داستانیں پنجابی کو سنائی دے رہی ہیں تو ریاست اپنے لفافیوں کو بھیج کر لاپتہ بلوچ ماؤں اور بہنوں کو مزید تکلیف دے رہی ہے تا کہ اس تکلیف سے پنجابی لطف اندوز ہو سکیں اور آرام سے سوتے رہیں۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالب علم ہیں۔