ریاستی جبر سے بے وطنی کا غم

حالیہ میڈیا رپورٹس کے مطابق تقریباً 400 مسیحی خاندان صرف تھائی لینڈ میں سیاسی پناہ کے انتظار میں ہیں اور لگ بھگ اتنی ہی تعداد کو ملائیشیا میں مشکلات کا سامنا ہے۔

Pakistani asylum seekers

خبر آئی ہے کہ حکومتِ پاکستان نے بیرونِ ملک پناہ گزینوں کے لئے پاسپورٹ جاری کرنے اور اُن کے پاسپورٹ میں توسیع کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اِن حکمرانوں سے خیر کی توقع کہاں کی جا سکتی ہے؟ پاک وطن میں زندگی اجیرن تو تھی ہی، اب مامندِ جہنم ہوئی چاہتی ہے۔ گویا زندگی سے ہی ڈر لگنے لگا ہے۔

شاہ محمود جامی نے کہا تھا،

تجھ پر چلے نہ زورِ جنوں ہائے زندگی
میں تیرے نام سے بھی ڈروں ہائے زندگی

پہلے تو یہاں جینے کے لالے تھے، اب دیارِ غیر میں بھی یہی غم ستائے گا۔ اپنوں سے دُوری کا غم کوئی خوشی سے بھی سہتا ہے بھلا؟ خاندان سے دُوری، اپنی گلی، گاؤں، کھیتوں، راہوں اور یاروں سے دُوری، عیدوں شبراتوں پر دُوری ایسا دکھ ہے کہ بیان سے باہر۔ پردیس کاٹنا جیل کاٹنے سے بھی کٹھن ہے۔ پردیس جانے والے فقط معاشی حالات سے مجبور ہو کر یا بعض جان کی امان پانے کے لئے سمندر پار جانے کا فیصلہ کرتے یا ترکِ وطن کا سوچتے ہیں۔ اس لئے کہ وطنِ عزیز کے حالات اِنہیں بہتر مستقبل کی ضمانت نہیں دے رہے ہوتے۔ ایسے میں حکمرانوں کا عجلت کا یہ فیصلہ ناصرف شہریوں کے لئے زندگی تنگ کرنے کے مترادف ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر "وطنِ عزیز" کے لئے بھی کوئی نیک نامی کا باعث نہیں بنے گا۔

گذشتہ ہفتے ہی تو ہم پاکستان کے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غیر مستقل ممبر چُنے جانے پر بغلیں بجا رہے تھے اورعہد و پیماں باندھے گئے کہ ہم انسانی حقوق کی ترویج کے لئے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور اُس کے چند روز بعد ہی انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے پناہ گزینوں کے لئے پاسپورٹ کے اجرا کی پابندی سمجھ سے بالا ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 14 میں درج ہے کہ ہر کسی کو ایذا رسانیوں کی بنیاد پر دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کا حق ہے۔

اس کےعلاوہ اقوامِ متحدہ کا 1951 کا مہاجرین کنونشن اور 1967 میں اس کا پروٹوکول پناہ گزینوں کوان ممالک میں واپس جانے سے روکتا / بچاتا ہے جہاں اُنہیں ستائے جانے / زندگی کا خطرہ ہو۔

اعلیٰ حکام پناہ گزینوں کی اِس "حرکت" کو "ملکی سلامتی اور سکیورٹی" کا معاملہ قرار دے رہے ہیں مگر انہوں نے اس فیصلے کے دیگر اثرات کو نظر انداز کر دیا ہے۔

اگر ہم پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال کا ہی جائزہ لیں تو مذہبی اقلیتوں کی جان و مال کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ نہ اُن کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہے نہ اُن کی عبادت گاہیں اور رہائشی املاک محفوظ ہیں۔ نہ تو وہ مذہبی آزادی کا سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی اُن کی جواں سال لڑکیاں مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں سے محفوظ ہیں۔ ایسے میں وہ من پسند جلاوطنی کا فیصلہ نہ کریں تو انہیں قبروں میں اتارنے کا سامان ہوا چاہتا ہے۔

یہ بات بھی فیصلہ سازوں کے ذہن نشین رہے کہ امریکی ادارے فریڈم ہاؤس کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مذہبی آزادی کے حقوق سے محروم ملک قرار دیا جا چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہم نے سیاسی حقوق میں 15 اور شہری آزادیوں کے ضمن میں 22 نمبروں کا تیر مار رکھا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے ہندوؤں کے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ یہ سلسلہ نہ تو ابھی تک تھما ہے اور نہ ہی موجودہ حالات کے تناظر میں تھمنے کے امکانات نظر آتے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں کی مذہبی قیادت کی نظر میں یہ غیر منصفانہ اورناقابلِ قبول قدم ہے بلکہ یہ نسل کُشی کے زُمرے میں آتا ہے۔ پناہ کے متلاشی ایسا قدم خوشی سے نہیں بلکہ اذیتوں کے پے در پے حملوں کے بعد ایسا فیصلہ کرتے ہیں اور حکومت بجائے یہ کہ اُن کے مسائل کے حل کی طرف توجہ مبذول کرتی الٹا انہی کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے لگی ہے۔

حالیہ میڈیا رپورٹس کے مطابق تقریباً 400 مسیحی خاندان صرف تھائی لینڈ میں سیاسی پناہ کے انتظار میں ہیں اور لگ بھگ اتنی ہی تعداد کو ملائیشیا میں مشکلات کا سامنا ہے۔

حکومت کا یہ فیصلہ ہر گز ہرگز دانشمندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا اس لئے کہ اس پر عمل درآمد سے لاکھوں پاکستانی شہری ناصرف بے یار و مددگار ہو جائیں گے بلکہ کسی بھی ملک کی شہریت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ یہ ناصرف پاکستان کے لئے جگ ہنسائی کا سامان ہو گا بلکہ عالمی سطح پر انوکھی مثال قائم ہو جائے گی۔

ویسے سوچنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ سرگودھا، جڑانوالا، گوجرہ، سانگلہ ہل اور شمع اور شہزاد کی جاں سوزی کے بعد اس سبز پاسپورٹ کی عزت اب باقی بچی ہی کتنی ہے اور اسے سنبھال کر اب کرنا بھی کیا ہے؟ ایک طرف حکومت اپنے شہریوں کو حقوق اور تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے تو دوسری طرف اپنی ہی نااہلی کو چھپانے کے لئے زرِ مبادلہ لانے والے اپنے شہریوں کو ہی لتاڑ رہی ہے۔

پاکستان میں انسانی تحفظ، انسانی احترام اور انسانی حقوق کی صورتحال روز بروز گراوٹ کا شکار ہے۔ ایسی صورت میں شہری اپنی جان و مال کی حفاظت اور روشن مستقبل کے خواب لیے بیرون ملک منتقل ہونا چاہتے ہیں تو اس میں ملکی سلامتی کو کون سے مسائل درپیش ہیں؟

پناہ گزینوں پر پابندیاں عائد کرنے کا مطلب ریاستی جبر لیا جائے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اربابِ اختیار ایسے فیصلوں پر نظرِثانی کریں اور ایسے حساس معاملات پر دانشمندی کا مظاہرہ کریں جن میں شہریوں خصوصاً پسماندہ طبقات کی بقا کا سوال ہو۔

مذہبی اقلیتیں غدارِ وطن نہیں۔ خدارا ان کے غم کو سمجھیے۔ یہ تو ریاستی جبر کے ستائے ہوئے ہیں۔ اب انہیں پاسپورٹ کی پابندی سے بے وطن ہونے کے غم میں مبتلا نہ کریں۔ خُدا آپ کا بھلا کرے۔