سلیکٹڈ وزیراعظم کے جہاں اور دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوٸے ہیں وہاں پولیس کو غیر سیاسی بنانے کے دعوے کی حقیقت صوبہ سندھ میں صاف نظر آ رہی ہے۔ جہاں آٸی جی پولیس سندھ کو صوبہ کے منتخب وزیراعلی کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔ آٸین اور قانون کے لحاظ سے سول سرونٹ کو صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے سامنے جوابدہ ہونا ہے مگر آٸی جی پولیس خود کو وزیراعلی کے تابع نہیں سمجھتے۔
دیکھا جاٸے تو سندھ میں وفاق کی مداخلت کو تقریباً 5 سال ہو رہے ہیں۔ جہاں کبھی رینجرز، ایف آٸی اے اور نیب کا ٹراٸکا بنا کر صوبہ کی حکومت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں تو کبھی آٸی جی پولیس کے ذریعے صوباٸی حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جاتا رہا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عوامی شکایات کی بنیاد پر کسی پولیس آفیسر کو صوبہ بدر کیا جاتا ہے تو آٸی جی پولیس شکایت کندہ علاقے کے منتخب نماٸندہ کے خلاف انہی افسروں سے چارج شیٹ جاری کرواتے ہیں۔ گذشتہ دنوں جب وزیراعظم اور وزیراعلی سندھ کے درمیان اصولی طور آٸی جی پولیس کے تبادلے کا فیصلہ ہوا تو آٸی جی نے میڈیا کے سامنے حکومت سندھ کو للکارا کہ میں آسانی سے جانے والا نہیں ہوں۔
سوال یہ ہے کہ سندھ میں انتظامی امور منتخب وزیراعلی کی ذمہ داری ہے یا آٸی جی پولیس کی؟ حقیقت یہ کہ اٹھارہویں آٸینی ترمیم کے بعد صوبوں کو خود مختاری حاصل ہے مگر وفاق گذشتہ پانچ سال سے جس طرح سندھ کی صوباٸی خود مختاری میں مداخلت کرتا چلا آ رہا ہے یہ طرز عمل وفاق کو سوالیہ نشان بنا رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ملک پر سلیکٹڈ سلطنت کا راج ہو۔
کلیم امام نامی شخص صوبے میں واسراٸے کے طور کام کر رہے ہوں، آٸی جی سندھ پولیس کا سیاسی کردار اس وقت کھل کر بے نقاب ہوا ہے جب انہوں نے عمر کوٹ کے ضمنی انتخابات کے حوالے سے ایس ایس پی پولیس اور ڈی سی کے تبادلے کیلئے الیکشن کمیشن کو خط لکھا۔ اس حلقے سے ہمیشہ پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار کامیاب ہوتے ہیں اور یہ نششت پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوٸی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آٸی جی پولیس نے کس بنیاد اور کس حیثیت سے الیکشن کمیشن کو صوباٸی محکمہ داخلہ کو باٸی پاس کرتے ہوٸے خط لکھا؟ لطف کی بات یہ ہے کہ پاکپتن میں وزیراعظم کی اہلیہ کی ناراضگی پر پولیس اور محکمہ اوقاف کے درجنوں افسروں کا یک جنبش قلم تبادلہ اور معطلی ہوتی ہے۔ خود آٸی جی سندھ پولیس بھی ایسے ہی واقعہ پر معطل ہونے کی سند رکھتے ہیں۔ آخر کس کی شہہ پر سندھ کی منتخب حکومت کے سامنے کھڑے ہو گٸے ہیں۔ ایسے حالات میں پولیس کو غیر سیاسی بنانے کے دعوے سیاسی آٸی جی پولیس کی صورت میں بے نقاب ہو چکے ہیں۔