'آئندہ انتخابات سے ملکی بحران ختم ہونے کی کوئی امید نہیں'

بحران کو حل کرنے کے لیے پہلے دو سال استعمال کرنے چاہئیں اور اگر حکومت اپنے آپ میں اعتماد رکھتی ہو تو اس حکومت کو 2 سال کے بعد خود نئے انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے وہ سیاسی جماعتیں جو الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئی ہوں گی، وہ بھی محض دو سال کے لیے اس محرومی کو کھلے دل سے قبول کر لیں گی۔

'آئندہ انتخابات سے ملکی بحران ختم ہونے کی کوئی امید نہیں'

1997 کے انتخابات سے قبل بھی الیکشن کے التوا اور ایمرجنسی لگنے جیسے خدشات موجود تھے۔ آخر تک انتخابی مہم کے بارے میں کچھ طے نہیں ہو پا رہا تھا اور 2024 جیسی غیر یقینی صورت حال تھی کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں۔ اس وقت پاکستان کو سیاسی، سماجی اور انتظامی بحرانوں کا سامنا ہے اور 2024 کے عام انتخابات سے یہ کثیرالجہتی بحران ختم ہونے کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔ ان انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو ملک کا بہت بڑا طبقہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہو گا تو بحران کیسے ختم ہو گا۔ یہ کہنا تھا گیلپ پاکستان کے سربراہ اعجاز شفیع گیلانی کا۔

یوٹیوب پر پروگرام 'ٹاک شاک' میں سینیئر صحافی اعزاز سید کو انٹرویو دیتے ہوئے اعجاز شفیع گیلانی نے کہا کہ انتخابات 2013 سے ملک بھر میں ایک طبقاتی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا جو معاشرے کے متوسط طبقے میں اقتدار کے لالچ سے شروع ہوا۔ یہ بحران 2018 تک شدت اختیار کر گیا اور انتخابات 2018 میں اس نے ایک شدید طوفان کی شکل اختیار کر لی۔ انتخابات 2024 میں بھی اس بحران کے حل ہونے کی توقع کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ انتخابات ضرور ہونے چاہئیں لیکن اگر ایک ایسی حکومت بن جائے جس کو ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہو تو بحران ختم نہیں ہو گا۔ یہ بحران 10 سال سے شرکت اقتدار کی محرومی کی وجہ سے چل رہا ہے۔

پاکستان میں 120 ملین ووٹر ہیں اور 272 سیٹیں قومی اسمبلی کی ہیں، قریب قریب 550 سیٹیں صوبائی اسمبلیوں کی ہیں اور 100 سینیٹ کی ہیں، مگر ان کے طلب گار اس سے بہت زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بحران جاری ہے۔ لہٰذا بحران کو حل کرنے کے لیے مزید صوبے یا چھوٹے چھوٹے یونٹس قائم کیے جانے چاہئیں۔ اس کے علاوہ نئی بننے والی حکومت کو پہلے دو سال استعمال کرنے چاہئیں اور اگر حکومت اپنے آپ میں اعتماد رکھتی ہو تو اس حکومت کو 2 سال کے بعد خود نئے انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے وہ سیاسی جماعتیں جو الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئی ہوں گی، وہ بھی محض دو سال کے لیے اس محرومی کو کھلے دل سے قبول کر لیں گی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ایک سوال کے جواب میں اعجاز شفیع گیلانی کا کہنا تھا کہ 2008 کے انتخابات 1990 کے الیکشنز کا ہی تسلسل تھے۔ 1999 میں ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو 2002 میں ایسی حکومت بنی جیسی حکومت کی 2024 میں توقع کی جا رہی ہے کہ جس میں حکومت بنتی تو ہے لیکن کمزور ہوتی ہے۔ 2008 میں ابھی جنرل مشرف کے دور والا ماحول جاری تھا۔ متعدد لحاظ سے 2008 کی حکومت ایک کامیاب حکومت تھی کیونکہ انہوں نے ملک میں جاری بحران کو ختم کیا تھا۔ اس سے پہلے کی حکومتیں بہت ناپائیدار تھیں کیونکہ ملک میں الیکشن کے ذریعے منتخب ہوئی انتظامیہ اور الیکشن کے بغیر آئی ہوئی انتطامیہ میں ایک تناؤ موجود تھا۔ 2008 کی حکومت اس وجہ سے بحران کا شکار نہیں ہوئی کیونکہ مرکز میں فریقین میں سے ایک فریق کی حکومت تھی جبکہ صوبے میں دوسرے فریق کی۔ انہوں نے اس سے پہلے میثاق جمہوریت پر اتفاق کر لیا تھا جس کے باعث ملک میں قدرے سیاسی استحکام دیکھنے میں آیا۔ 2013 تک پہنچتے پہنچتے سیاسی جنگ کے ساتھ ساتھ سماجی طبقات کے مابین کشمکش بھی پیدا ہو گئی۔ ملک کے متوسط طبقے میں شرکت اقتدار کا شدید احساس پیدا ہوا اور اس نے ایک تحریک کی صورت اختیار کر لی۔ یہ وہ جنگ ہے جو اب تک جاری ہے اور اس جنگ کو موجودہ عام انتخابات میں ختم کرنا ضروری ہے۔

اعزاز سید کے سوال کے جواب میں انہوں نےکہا 1997 کے الیکشن 1985 کے الیکشن کی ہی سلسلہ وار کڑی تھی۔ 1985، 1988، 1990، 1993 اور پھر 1997؛ یہ پانچوں الیکشن ایک ہی جیسے تھے جن کی بنیاد 1985 میں پڑی تھی، جس میں منتخب اور غیرمنتخب نمائندگان کے مابین تعلق کی نوعیت کو ایک خاص قسم کی قانونی حیثیت دے دی گئی تھی۔ یہ الیکشن انتقال اقتدار کے لیے نہیں بلکہ شرکت اقتدار کے لیے منعقد ہوتے تھے۔ اس دوران صدر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ معمولی وجوہات کی بنیاد پر بھی منتخب حکومت کو گھر بھیج سکتا تھا۔ 1997 کے انتخابات ہوئے تو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ووٹر نے اپنی پارٹی کے خلاف احتجاج کیا اور حمایت سے پیچھے ہٹ گئے۔ یوں پیپلز پارٹی کا ناراض ووٹر مسلم لیگ ن میں آ گیا۔ پنجاب میں اگر 8 سے 10 فیصد ووٹ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں چلا جائے تو اس پارٹی کی مرکز میں اکثریت بن سکتی ہے۔ 1997 میں بھی یہی ہوا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کو 2 تہائی سے زیادہ اکثریت ملی۔

1970 کے انتخابات سے متعلق سوال پر گیلپ پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا پاکستان میں سب سے مہلک انتخابات 1970 کے ثابت ہوئے۔ ایک لحاظ سے انتخابات کی سب سے بڑی توہین بھی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انتخابات ایک فوجی اقتدار نے اپنے آپ کو دوام دینے کی خاطر منعقد کروائے تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ ملک میں تمام سیاسی قوتیں بکھری ہوئی ہیں اور نتائج بھی بکھرے ہوئے آئیں گے۔ انہوں نے من چاہے نتائج کے لیے پوری انتخابی مہم اپنے اختیار میں رکھی ہوئی تھی۔ ان کا خیال مغربی پاکستان میں غلط ثابت ہوا کہ ووٹ تو تقسیم ہو گیا لیکن سیٹیں تقسیم نہیں ہوئیں۔ جبکہ مشرقی پاکستان میں ووٹ تقسیم ہوا اور نا ہی سیٹیں۔ نتیجہ ملک ٹوٹنے کی صورت میں نکلا۔ لہٰذا انتخابات اچھے یا مہلک دونوں طرح کے نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں۔

اعجاز شفیع گیلانی کے مطابق 1997 کے انتخابات سے قبل بھی الیکشن کے التوا اور ایمرجنسی لگنے جیسے خدشات موجود تھے۔ اس وقت کی عبوری حکومت کے طور طریقوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ مختصر مدت کے لیے نہیں آئی۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کے پاس کئی سال تک حکومت کرنے کا منصوبہ ہے۔ آخر تک انتخابی مہم کے بارے میں کچھ طے نہیں ہو پا رہا تھا اور 2024 جیسی صورت حال تھی کہ الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں۔ اس وقت کہا جاتا تھا کہ عبوری حکومت چاہتی ہے کہ ووٹ کم پڑیں اور اس کو بنیاد بنا کر نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ اس وقت کا بحران بنیادی طور پر سیاسی بحران تھا، سماجی اور انتظامی بحران نہیں تھا۔ 2024 کے انتخابات ان تینوں قسم کے بحرانوں کا مجموعہ ہیں۔