اور کراچی پھر ڈوب گیا

اور کراچی پھر ڈوب گیا
موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ناقص انفراسٹرکچر اور بکھرے ہوئے شہری انتظام کی وجہ سے کراچی شہری سیلاب کی زد میں ہے۔ 2020ء کے شہری سیلاب کے دو سال بعد وفاقی اور صوبائی اداروں کے تمام دعوئوں کے برعکس مون سون کی موسلا دھار بارشوں میں کراچی ایک بار ڈوب گیا۔

کچی آبادیاں اور بستیاں تو کجا شہر کے پوش علاقوں میں بھی شاید ہی کوئی سڑک یا گلی ہو جہاں پانی کھڑا نہ ہو اور گٹر ابلتے دکھائی نہ دیں۔ وفاقی وصوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، بلدیہ عظمیٰ کراچی، ضلعی بلدیہ عالیہ سے لے کر کنٹونمنٹ بورڈز تک تمام کے تمام ادارے شہر کو بہتر بنانے اور سہولیات کی فراہمی کے ساتھ شہری سیلاب سے نمٹنے میں بری طرح ناکام رہے۔ جبکہ دوسری جانب بے حس اور خود غرض سیاست دان اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف رہے اور عوام کے لیے کچھ نہیں کیا جس کے سبب 'عروس البلاد' کہلانے والا شہر بارش اور سیوریج کے پانی سے مکمل طور پر زیر آب آگیا۔

بارہا لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ کراچی کے ڈوبنے کی وجہ کچی آبادیاں ہیں بالخصوص وہ کچی آبادیاں جو کہ نالوں کے اطراف میں ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ گجر اور اورنگی نالے کا نام لیا جاتا ہے۔ چلیں اس بات کو اگر درست مان بھی لیا جائے تو کوئی یہ بتا دے کہ پھر طارق روڈ، نرسری، پی ای سی ایچ ایس، کلفٹن اور ڈی ایچ اے کے ڈوبنے کی کیا وجوہات ہیں۔ یہ تو کچی آبادیاں نہیں بلکہ ان کا شمار شہر کے پوش علاقوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح متوسط طبقے کی رہائشی آبادیاں فیڈرل بی ایریا، عزیز آباد سے لے کر گلشن اقبال اور گلستان جوہر تک ڈوب گئے تو کیا ہی بہتر ہو کہ تعصب سے بالاتر ہو کر لفظ 'تعمیرات' استعمال کیا جائے جس سے اصل مسئلے کی نشاندہی ہوسکے۔ کیونکہ یہ نالوں پر موجود تعمیرات ہی ہیں جو پانی کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور وہ کچی آبادیاں ہرگز نہیں ہیں۔

اب اہم بات یہ کہ وہ تعمیرات کون سی اور کہاں واقع ہیں؟ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ تعمیرات نالوں کے اخراج پر ہیں اور پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ہیں اور یہ کوئی کچی آبادیاں نہیں بلکہ شہر کے پوش علاقوں میں نالوں پر کی جانے والی تعمیرات ہیں جیسے کہ مائی کولاچی بائی پاس کی ناقص تعمیر سے شہر کے تین نالوں کا پانی رک جاتا ہے اور ان تین نالوں کے پانی کو سمندر تک لے جانے کے لئے ایک چھوٹے نالے کی شکل دے دی گئی ہے جس کے باعث جب تیز بارشیں ہوں تو ان نالوں کا پانی اردگرد کے علاقوں کو متاثر کرتا ہے۔

اسی طرح ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی تعمیرات محمود آباد نالے کے پانی میں رکاوٹ ہیں اور بارشوں کی صورت میں ایک بڑا علاقہ زیر آب آ جاتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال ناردن بائی پاس پر بھی سامنے آتی ہے کہ اس کی سطح زمین سے اونچائی پانی کو سمندر تک پہنچنے سے روکتی ہے کیونکہ اس کی تعمیر کے دوران پانی کی گزرگاہ کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہی نہیں بلکہ مستقبل میں ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے باعث ملیر ندی کے اطراف کے کئی علاقوں کے زیر آب آنے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح سپر ہائی وے کے اطراف بے جا تعمیرات اور جدید سوسائٹیوں نے قدرتی پانی کے بہاؤ کو روکا ہے جس کے باعث سعدی ٹاؤن اور گرد ونواح زیر آب آتے ہیں۔

ایک جانب یہ بحث بھی جاری ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مون سون کے موسم کی ہلاکت خیز شہری سیلاب میں بدلنے کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور تباہ حال انفراسٹرکچر دونوں ہیں یا یہ صورتحال صرف موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے؟ تو موسمیاتی تبدیلی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر کراچی کے ڈوبنے کے پیچھے کئی عوامل ہیں جن میں سے ایک تباہ حال انفرا سٹرکچر ہے۔ ایک تو شہر کا نکاسی آب کا نظام موثر نہیں رہا تو دوسری جانب روایتی وفرسودہ طریقے ہیں جو پانی کی صفائی کے لئے اپنائے جاتے ہیں جیسے موجودہ شہری سیلاب کے دوران دیکھا گیا کہ شدید بارش کے دوران جھاڑوؤں کی مدد سے پانی کی نکاسی کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔

2020ء کے شہری سیلاب کے بعد شہر کے نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے وفاق اور صوبے کے باہمی اتفاق سے شہر کے تین بڑے نالوں کی چوڑائی کو بحال کرنے پر کام شروع ہوا مگر ان میں سے دو بڑے نالوں گجر نالہ اور اورنگی نالہ کی تعمیر نو کا کام دو سال گزرنے کے باوجود مکمل نہ ہو سکا جبکہ اس ترقیاتی منصوبے کی قیمت 15 ہزار سے زائد خاندانوں نے اپنے گھروں سے بے دخلی کی صورت میں چکائی جنہیں تجاوزات کا نام دیا گیا اس عمل میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، کئی خاندان کرائے کے مکانات میں منتقل ہوئے اور مجموعی طور پر غربت میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ہزاروں بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی کیونکہ کئی خاندانوں کے سربراہ کا روزگار چھوٹ گیا۔ مگر بات یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ بچ جانے والی آبادیاں دیگر کئی طرح کے مسائل کے گھیرے میں آگئیں جس میں ایک اہم معاملہ رہائشیوں کی نقل وحرکت اور اپنے گھر تک رسائی رہا۔

اسی طرح تعمیراتی کام کے سبب موجودہ مون سون میں ان نالوں کے اطراف میں رہنے والے زیادہ مشکل اور پریشانی کا شکار ہوئے۔ مون سون کی اوائل کی بارشوں میں کراچی کے گجر نالے سے ملحقہ ایک کچی آبادی کوثر نیازی کالونی سے ایک سماجی کارکن نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ سیلابی ریلہ گجر نالے کی نئی تعمیر شدو دیوار تک پہنچ  چکا ہے اور پھر بارش کی دوسری لہر میں پانی نے بنائی گئی اکثر دیواروں کو توڑ دیا اور گھروں میں داخل ہو گیا جس سے اکثر رہائشیوں کے گھر کا سامان تباہ وبرباد ہو گیا۔ مالی نقصان کے علاوہ جانی نقصانات بھی سامنے آئے کہ ایک گھر کی چھت گر گئی جس میں ایک خاتون ہلاک ہوئی اور کئی مقامات پر لوگ نالوں میں ڈوب کر ہلاک بھی ہوئے اور وہ مقصد بھی پورا نہ ہوا کہ شہر کو سیلاب سے بچایا جاسکے۔

جبکہ حکومتی دعوئوں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ شہر میں شہری سیلاب جیسا کوئی مسئلہ موجود ہی نہیں کیونکہ ان کے مطابق ان کی اپنی کارکردگی بہت بہتر رہی ہے۔ مگر زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں جو کاروباری مراکز سیلابی ریلے کا شکار ہوئے وہاں کروڑوں کا نقصان سامنے آ رہا ہے اور اس کے ساتھ رہائشی آبادیوں میں اب بھی گھروں میں سیوریج اور بارش کا پانی جمع ہے اور جو سامان کا نقصان ہے اس میں بھی حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملتی جبکہ مون سون سے قبل حکومتی اداروں کی جانب سے یہی کہا جا رہا تھا کہ اس سال سیلاب نہیں آئے گا کیونکہ ہم نے نالوں کی صفائی کر دی ہے لیکن شہر بدترین صورتحال سے دوچار نظر آ رہا ہے۔

نالوں پر تعمیرات کے بعد دوسری اہم وجہ شہر کے کچرے کے انتظام کا بہتر نہ ہونا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر کا 40 فیصد کچرا ان نالوں میں جاتا ہے اور نکاسی آب میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ شہر کا کچرا اٹھانے کی ذمہ داری کس کے پاس ہے؟ کہیں بلدیہ عالیہ تو کہیں کوئی چینی کمپنی، تو کبھی سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا نام سننے میں آتا ہے جبکہ کنٹونمنٹ کے زیر اثر علاقوں میں علیحدہ نظام ہونے اور نام نہاد لینڈ فل سائٹ کے شہر سے تقریباً 40 کلومیٹر دوری کے سبب سرکاری اداروں کا عملہ بھی اکثر کچرا نالوں میں ڈال کر بری الذمہ ہو جاتا ہے مگر اس عمل کی وجہ سے شہر کو سیلاب کی صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

شہری سیلاب کی تیسری اہم وجہ ناقص فن تعمیرات اور ترقیاتی منصوبوں میں نکاسی آب کو نظر انداز کرنا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ذرا سی بارش ہوئی نہیں اور سڑکیں بپھری ہوئی ندیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سڑکوں کی تعمیر کے وقت نکاسی آب کے نظام کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور اکثر مقامات پر نئی تعمیر شدہ سڑکیں اونچی ہونے کی وجہ سے ملحقہ علاقے اور آبادیاں نشیبی شکل اختیار کر چکے ہوتے ہیں اور بارش کے ساتھ ہی یہ علاقے جھیلوں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں کیونکہ سڑکوں سے پانی ان علاقوں میں جمع ہو جاتا ہے اور ان نشیبی علاقوں میں پانی کے اخراج کا کوئی نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سےان کا پانی سمندر میں نہیں جا سکتا تو یہ پانی گٹر لائنوں میں شامل ہو کر سیوریج کی سطح کو بڑھاتا ہے۔

پھر شہر کے پھیلاؤ کے ساتھ نئی ابھرتی عمارتوں اور کالونیوں نے شہر کی زمینی نشیب وفراز اور جغرافیائی خصوصیات میں تبدیلی کی جس کی وجہ سے اکثر علاقوں سے بارش کا پانی نالوں میں نہیں پہنچ پاتا اور اردگرد کی آبادیاں زیر آب آ جاتی ہیں۔ اکثر جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ سڑکیں اور شاہراہیں برساتی نالوں سے نہ ملی ہونے کے سبب یا بہتر ڈھلان نہ ہونے سے پانی گھنٹوں کھڑا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ نئے ترقیاتی منصوبوں میں برساتی نالوں کو ختم کر دیا جاتا ہے جیسا کہ کراچی کی گرین لائن کے نظام کو بچھاتے ہوئے ناگن چورنگی پر نکاسی آب کے نظام کو تباہ کرنے سے اب معمولی سی بارش سے وہ تمام علاقہ زیر آب آ جاتا ہے۔

اگر شہری سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات کی بات کی جائے تو سب سے پہلے برساتی نالوں کا ایک علیحدہ نظام بہت ضروری ہے اور یہ نالے سڑکوں کے اطراف میں ہوں اور صرف بارش کے پانی کو لے کر چلیں اگلے مرحلے میں اس پانی کو ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ پھر ساتھ ہی شہر کے کچرے کے انتظام کو اس قدر بہتر کر دیا جائے کہ کچرا برساتی نالوں یا سیوریج کے نالوں کا حصہ نہ بنے۔ ساتھ ہی شہر کی تمام شاہراہوں پر پانی کی نکاسی کا معقول بندوست ضروری ہے تاکہ ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو۔

اس کے علاوہ نشیبی علاقوں کی نشاندہی کرنے والے جدید نقشے تیار کرنے کے ساتھ اس پانی کے اخراج کے لئے انتظامات کئے جا سکتے ہیں۔ نئے ترقیاتی منصوبوں کا ڈیزائن بناتے ہوئے بارش کے پانی کی نکاسی کی ضروریات کو مدنظر رکھنے سے مزید نقصان سے بچا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات مرحلہ وار اور ایک خاص ترتیب سے وقت کے ساتھ ساتھ کئے جائیں تاکہ شہر کے دیگر امور میں خلل نہ پڑے۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے