کئی اور ممالک کی طرح پاکستان میں بھی 'ہیٹ ویوز یا شدید گرمی کی لہر' کو قدرتی آفت قرار نہیں دیا جاتا بلکہ اسے موسم کی عارضی سختی ہی سمجھا جا رہا ہے۔ اگر کوئی شہر سیلاب، طوفان یا زلزلے جیسی قدرتی آفت کا شکار ہوں تو اس کا اثر فوری طور پر نظر آتا ہے۔
اگر ایسا ہو تو ادارے متحرک ہو جاتے ہیں جبکہ ہیٹ ویو کے اثرات ضروری نہیں کہ فوری طور پر سامنے آئیں۔ بعض اوقات ہیٹ ویو عمر رسیدہ افراد اور ان کے امراض کو ناصرف پیچیدہ کرتی ہیں بلکہ مختلف بیماریوں کا سبب بھی بنتی ہیں جبکہ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ شدید گرمی کے باعث طبیعت خراب ہوئی اور بہتر ہو گئی مگر کچھ سالوں بعد مختلف بیماریوں نے شدت سے آ گھیرا۔
ایک دہائی قبل تک پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر غالب گفتگو بڑے پیمانے پر صرف 'شہری سیلاب' پر مرکوز تھی اور گرمی کی لہر کبھی اس گفتگو میں شامل نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ملٹی ہیزرڈ ہنگامی منصوبہ (2013) میں، سندھ کے تناظر میں بطور خطرہ ' گرمی' کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ لیکن 2015 کی ہیٹ ویو نے پورے منظر نامے کو تبدیل کر دیا اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو ایک آفت کے طور سمجھنے کا عمل شروع ہوا اور یہ بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ 2015 کے اندوہناک واقعے کے بعد ہیٹ ویو کے انتظام کے بارے میں ریاست نے وسیع پیمانے پر بات چیت شروع کر دی۔ اس واقعے کے نتیجے میں 2017 میں کراچی ہیٹ ویو مینجمنٹ پلان کراچی کمشنر آفس، حکومت سندھ اور لیڈرشپ فار انوائرمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ (LEAD) پاکستان کے تعاون سے تیار کیا گیا۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کے مطابق " گرمی کی لہر اس وقت ہوتی ہے جب مسلسل پانچ دن کا درجہ حرارت (اوسطاً زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت سے) 5 سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جائے۔" لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ ہیٹ ویو کا تعین مقامی سطح کے متعلقہ موسمی حالات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس کی کوئی عالمگیر تعریف نہیں ہے۔
کراچی کی گرمی کی لہر سے متعلق رپورٹس اس اہم نکتے کی تائید تو ضرور کرتی ہیں لیکن ہیٹ ویو کی اس تعریف کو بیان نہیں کرتیں جو کہ کراچی میں گرمی کی شدید لہر کا سبب بنتی ہے اور حد درجہ نمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ کراچی کی گرمی کی لہروں کو "نم ہیٹ ویو" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے لیکن ان کی درجہ بندی کے لیے کوئی خاص اشارے موجود نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ کوئی ٹھوس تعریف دیگر کلیدی عوامل (جیسے کہ مسلسل درجہ حرارت کے ساتھ دنوں کی تعداد، ہیٹ انڈیکس ویلیوز اور نمی) سے وابستہ نہیں ہیں۔
2007 میں وفاق کی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) تشکیل دی گئی تھی اور اسے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ آرڈیننس 2006 کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ اس کا کام پورے ڈیزاسٹر مینجمنٹ دورانیہ کا انتظام کرنا ہے جس میں تیاری، خطرے کی شدت میں کمی اور بحالی شامل ہے۔
اسی طرح 2010 میں صوبائی اور ضلع کی سطح پر 'صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی 'نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2010 کے تحت قائم کی گئیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں، صوبائی اتھارٹی ضلعی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے تاکہ تباہی سے متاثرہ علاقوں کا ابتدائی جائزہ لیا جائے اور متاثرہ آبادی کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے کارروائی کا طریقہ کار طے کیا جائے۔ آفات یعنی ڈیزاسٹر کے اثرات کو ختم کرنے میں اداروں کی کارکردگی ایک علیحدہ بحث ہے جبکہ ہم ان آفات میں سے صرف ایک جز کو دیکھ رہے ہیں یعنی' ہیٹ ویو'۔
ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام تو ہوا مگر زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ضلعوں کی سطح پر ان کا انتظامی انفراسٹرکچر موجود نہیں ہیں بلکہ دوسرے ریاستی اداروں کو اضافی ذمہ داری کے طور پر یہ کام سونپا جاتا ہے جبکہ تباہی اور آفت کی صورت میں کسی پلان پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ہے تو اگر اس سطح پر ادارہ مضبوط نہ ہو مسائل کا حل مشکل ہے۔ اسی طرح کہ آفات سے نمٹنے میں شہری دفاع اور اس کے رضا کاروں کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں مگر اب شہری دفاع کے دفاتر خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
ریاستی کردار کے ساتھ درجنوں غیر ریاستی کردار کراچی کی شدید گرمی کو کم کرنے اور اس سے نمٹنے کے لئے کام کر رہے ہیں جن میں این جی اوز، انسان دوست تنظیمیں اور بین الاقوامی تنظیموں سے لے کر میڈیکل یونیورسٹیوں اور کارپوریٹ اداروں کے لوگ بھی شامل نظر آتے ہیں۔ جیسے شہری، اربن ریسورس سینٹر، ہینڈز، کاریتاس پاکستان، ایدھی فاؤنڈیشن، عالمگیر ٹرسٹ، فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (ایف جی آر ایف)، الخدمت، فروزاں کے ساتھ ساتھ ریڈ کراس، ریڈ کریسنٹ جیسی بین الاقوامی تنظیمیں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ ہیٹ ویو الرٹ کے دنوں میں ایمبولینس سروسز اور طبی امداد فراہم کرنے کے لیے سٹینڈ بائی بنیاد پر کام کرتی ہے جبکہ کچھ ادارے خاص طور پر گرمی کے خطرے کو کم کرنے کے لیے زمینی امدادی کام کے ساتھ سرگرم ہیں۔ اور الرٹ جاری ہونے پر شہر بھر میں ہیٹ ویو ریلیف کیمپ بھی لگاتے ہیں۔
ہماری ایک ورکشاپ میں الخدمت فاؤنڈیشن کے ایک سینئر نمائندے نے ایک اہم نکتہ بیان کیا جس سے ہیٹ گورننس اور اس کے سکیل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کے مطابق: این جی اوز ایک چھوٹا سا نقطہ ہیں۔ ریاست کا کردار کم ہو رہا ہے اور نجی اداروں کا کردار بڑھ رہا ہے۔ لیکن ہم اس طرح کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو ریاست کر سکتی ہے۔
شہر کراچی کے مکینوں نے جون 2015 میں ایک ہفتہ طویل ہیٹ ویو کا تجربہ کیا جبکہ رمضان کا مہینہ تھا اور گرمی کی شدت کو 50 سالوں میں پاکستان میں آنے والی مہلک ترین اور ہلاکت خیز ہیٹ ویو تصور کیا گیا۔ 19 اور 23 جون کے درمیان، سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1181 افراد ہلاک ہوئے جب درجہ حرارت بڑھ کر 44 سینٹی گریڈ ہو گیا اور محسوس کیا جانے والا درجہ حرارت 66 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ اگرچہ یہ شہر کی تاریخ کا ریکارڈ توڑ درجہ حرارت نہیں تھا کیونکہ تاریخی شواہد کے مطابق 1938 میں مئی اور جون کے مہینوں میں زیادہ سے زیادہ درج شدہ درجہ حرارت 47 اعشاریہ 8 جبکہ 1979 میں 47 سینٹی گریڈ تھا۔ لیکن اس وقت وہ درجہ حرارت اتنا مہلک اور ہلاکت خیز نہ تھا۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر اموات کم آمدنی والے علاقوں میں ہوئی ہیں اور ان میں مزدور اور بے گھر لوگ شامل تھے۔ اگرچہ سرکاری اعداوشمار زمینی اور ماحولیاتی اثرات کو سمجھنے کے لئے محدود ہیں یعنی یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ بنیادی عوامل کیا تھے جس کے سبب اتنی اموات ہوئیں۔ جیسے کہ قدرتی اور تعمیر شدہ ماحول کے حوالے سے بعض عوامل (مثال کے طور پر اردگرد کی آبادی کا دباؤ، گھر کی تعمیر کا سامان، بنیادی سہولیات تک رسائی اور کام کی جگہ کے حالات) ہیٹ ویو کے دنوں میں زیادہ درجہ حرارت کے اثرات کو بڑھا سکتے ہیں۔
کراچی ہیٹ ویو مینجمنٹ پلان کی دستاویز کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پلان اصل میں ہندوستانی شہر احمد آباد کے لیے تیار کردہ ٹیمپلیٹ کی پیروی کرتا ہے جہاں اسی طرح کی ہیٹ ویو کا تجربہ رہا ہے۔ اگرچہ یہ پلان ہیٹ ویو سے نمٹنے کے لیے وسیع معیار کی حکمت عملی بیان کرتا ہے لیکن یہ بھی ہیٹ ویو کی مخصوص تعریف نہیں کرتا ہے اور نہ ہی کراچی کے مختلف مائیکرو کلائمیٹ کے مطابق ان حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی وضح کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ واحد ہیٹ ویو ایکشن پلان ہے جو پاکستان کے کسی بھی شہر کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
اسی طرح نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی 2015 کی رپورٹ وہ پہلا موقع تھا جب این ڈی ایم اے نے گرمی کی لہر ( ہیٹ ویو) کو تباہی/ آفت سمجھا بلکہ اپنی رپورٹ میں کہا کہ سال 2015 میں کئی اہم واقعات ہوئے جن میں سیلاب اور زلزلے کے ساتھ ساتھ ' ہیٹ ویو' کو بھی شامل کیا گیا۔ اس کے بعد بھی 2016 اور 2017 کی رپورٹ میں این ڈی ایم اے نے گرمی کی لہر سے آگاہی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کیا۔
مگر سوال یہ تھا کہ کیا حقیقتاً گرمی کی لہر کو ایک آفت کے طور پر سمجھا جا رہا ہے یا یہ صرف 2015 میں ہونے والے واقعے کی بدولت ہے۔ اس کے لئے ہم نے این ڈی ایم اے کی ویب سائٹ اور دیگر رپورٹس کو دیکھا تو پتہ چلا کہ ڈیزاسٹر کے سیاق وسباق میں ابھی تک ہیٹ ویو کو شامل ہی نہیں کیا گیا ہے۔ قدرتی آفات کی فہرست میں لو یا ’ ہیٹ ویو‘ کا ذکر نہیں ہے جس کے تحت متاثر ہونے والوں کو امداد دی جا سکے۔ حاصل گفتگو یہ ہے کہ متعلقہ اداروں کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر گرمی کی لہر ( ہیٹ ویو) سے متعلق واقعات کو قانون سازی میں تباہی/ آفت کے طور پر شامل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔