جنگ اخبار میں ایک عرصہ سے لکھنے والے صحافی مظہر برلاس نے اپنے کالم میں حکومت کے اندرونی حالات کی خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ صورتحال پتلی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ حالات کے بارے سوچ ہی رہا تھا کہ بودی شاہ آگئے، عرض کیا کہ شاہ جی! آپ بھی فرمائیں جو فرمانا ہے۔ بیزاری سے کہے گئے جملے پر بودی شاہ پھٹ پڑا ’’ فواد چوہدری نے تو ذرا سا بےنقاب کیا ہے ورنہ حالات اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہیں،
پتا نہیں ایک وزیر دوسرے وزیر کو تھپڑ مارتے مارتے کیسے رُک گیا، ملک پر گرپ کیا ہونی ہے، کابینہ پر گرپ نہیں، مشیروں کی فوج کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں، ایسے لوگ مشاورتوں کے ذریعے اقتدار میں ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، بعض بریف کیس لے کر آئے ہوئے ہیں اور بعض مبینہ طور پر یہ کہتے ہیں کہ ہم اکیلے تو نہیں کھاتے، سب کو کھلاتے ہیں۔
یاد رہے کہ حکومت کے اندر معاملات ٹھیک نہ ہونے کی خبریں اب تواتر سے آرہی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں انہوں نے اپنے بیوروکریٹ دوست سے حکومت کی کارکردگی اور اسکے چلنے کے حوالے سے سوال کیا تو جواب آیا کہ سابقہ حکومتوں میں بھی کارپٹ بیگرز تھے مگر اس حکومت میں کارپٹ فیصلہ ساز بن گئے ہیں، اسی لئے حالات خراب ہیں ،میں نے کہا، اچھا، تو وہ پھر بولا میں کبھی کبھی عہدوں کی پروا کئے بغیر عام کھوکھوں اور ڈھابوں سے چائے بھی پی لیتا ہوں۔
عام دکانوں پر جاتا ہوں، میلوں پیدل چلتا ہوں، مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کی بات سنوں، غریب آدمی کیا کہتا ہے، متوسط علاقے میں اس لئے جاتا ہوں کہ ان کے خیالات سن سکوں، امیروں کی سوچ کا علم مجھے روزانہ کی بنیاد پر ہو جاتا ہے، میں نے محسوس کیا ہے کہ اس حکومت سے غریب اور متوسط طبقہ تو بہت تنگ ہے، امیر طبقہ بھی اپنے کاروبار کا رونا رو رہا ہے، شاید چند لوگ خوش ہوں، آپ کا میڈیا بھی تو حکومت سے شاکی ہے۔