توقع کرتے ہیں سماعت مکمل ہونے تک ملٹری کورٹ ٹرائل شروع نہیں کرے گی: چیف جسٹس

توقع کرتے ہیں سماعت مکمل ہونے تک ملٹری کورٹ ٹرائل شروع نہیں کرے گی: چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال  نے ریمارکس دیے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ امید ہے جب تک کیس سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہے تب تک ملٹری کورٹ ٹرائل کا آغاز نہیں کرے گی۔

سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کا  7 رکنی لارجر بنچ ٹوٹ گیا۔جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بنچ سے علیحدہ ہونے کے بعد 6 رکنی بنچ دوبارہ سماعت کر رہا ہے۔  6 رکنی لارجر بنچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعائیں کر رکھی ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ میں اِن میں سے صرف ملٹری کورٹ والی استدعا پر فوکس کروں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔

درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے۔ ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے۔ ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انھیں یہ ’امید ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا۔F

انھوں نے کہا کہ 102 زیر حراست افراد کو اہلخانہ سے ملنے کی اجازت دی جائے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے مطابق ’جو افراد گرفتار کیے گئے ان کی مکمل تفصیلات بھی فراہم کریں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ خاندان کو کیوں قیدی بنایا گیا ہے؟

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ درخواست گزار جنید رزاق کی فیملی کب سے قید میں ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 9 مئی سے ارم رزاق اور دیگر کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔

ان کے مطابق اتنے دن گزر گئے ابھی تک کچھ پتہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اس معاملے کو دیکھیں، ان کو خاندان سے ملنے کی اجازت دیں۔ اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے توقع ہے کہ عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک کوئی ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو کوئی شکایت ہے تو نام بتادیں میں متعلقہ حکام سے بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان افراد کو وکیلوں تک رسائی بھی نہیں دی جارہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل لطیف خان کھوسہ نہ خاندان کو ملنے دیا جاریا ہے۔ لطیف خان کھوسہ مجھے نام بتادیں تو میں آگے بات کروں گا۔ اٹارنی جنرل اٹارنی جنرل ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ایف پی ایل ای کے ساتھ اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے؟ اپنے پہلے دن کے سوال پر جاؤں گی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا افواج کے افسران کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانیہ اور امریکا میں مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ آرمی آفیشلز کے ٹرائل پر تھا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک آرمی آفیسر کا بھی ملٹری کورٹس میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر کسی عدالت میں ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے۔ بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہوگا تو یوں ہوگ۔ ایسے تو کل ملٹری افسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی۔ ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے۔ متعلقہ بات ہی کریں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ آرٹیکل 175 کی شق 3 کو بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جوڑ رہے ہیں۔ اس کا اطلاق تو پھر فوجی عدالتوں پر بھی ہوگا۔  175 کی شق 3 کا یہاں کیا تعلق ہے؟

سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ آرٹیکل 175 کی شق 3 شفاف ٹرائل کی دی گئی ضمانتوں کے آرٹیکل 9 اور 10 کے ذریعے مؤثر ہوتا ہے۔ کسی شخص کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں کوئی عدالتی نظیر دکھا دیں۔ 175 کیسے ملٹری ایکٹ سے منسلک ہے۔ ایک گھڑی ہے جسے گرینڈ کومپلیکیشن (Grand Complication) کہتے ہیں۔ آپ گرینڈ کومپلکیشن نہ بنائیں۔ آپ اپنے دلائل مختصر اور صرف کیس سے متعلق دیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا۔ جو اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ آپ آرمی ایکٹ کی شقیں چیلنج کر رہے ہیں لیکن وجوہات نہیں بتا رہے۔

سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل امور جوڈیشری ہی چلا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں۔ آپ جو بات کر رہے ہیں وہ فوجیوں کے حق میں جاتی ہے۔ ہم بہت سادہ لوگ ہیں۔ ہمیں سادہ الفاظ میں بتائیں۔ جو باتیں یہاں کر رہے ہیں ہارورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔

سلمان اکرام راجا نے کہا کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا۔ میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو ہمیں یہ ہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟

سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ کسی پر الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا، سویلینز کی 2 اقسام ہیں۔ ایک وہ سویلین ہیں جو آرمڈ فورسز کو کوئی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ فورسز کو سروسز فراہم کرنے والے سویلین ملٹری ڈسپلن کے پابند ہیں۔ دوسرے سویلینز وہ ہیں جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ جو مکمل طور پر سویلینز ہیں ان کا ٹرائل 175/3 کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسی کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175/3 سے تعلق نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ آرمی چیف کے سامنے یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہو۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے پہلے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ عدالت کے فیصلوں پر عمل اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کیلئے کوئی چھڑی نہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن انکی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔ آپ ایک بہت اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے مالک وکیل ہیں۔ ایک پوری سیریز ہے جس میں بنچ پر بار بار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے۔ پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا، جواد ایس خواجہ صاحب ایک درویش انسان ہیں۔آپ ایک مرتبہ پھر بنچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔

چیف عمر عطا بندیال نے کہا کہ جواد ایس خواجہ کے ساتھ میں نے بھی کام کیا ہے اور انکا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، آپ بنیادی حقوق کو کیسے ختم کریں گے۔ بنچ کے ممبران پر اعتراض اٹھا کر کیا چاہتے ہیں؟ کیا دوبارہ سے جو ہمیں کہا جاتا ہے لائک مائنڈڈ ججز والا ایشو چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کی تضحیک مت کریں۔ سپریم کورٹ پر الزامات خود وفاقی حکومت لگا رہی ہے۔ نیا بنچ بنا دیں گے لیکن اعتراض اٹھانا بدنما مذاق ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فوج کی زیر حراست میں موجود افراد سے ان کے اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی۔ نو مئی کے واقعے کو اتنے ہفتے ہوگئے۔

اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج کے زیر حراست افراد کی اہلخانہ ملاقات بارے حکومت سے ہدایات لے کر بتائیں۔ ہمیں کچھ معلومات مل رہی ہیں کہ زیر حراست افراد کو کھانا اور کتابیں فراہم نہیں کی جا رہی۔ ہمیں زیر حراست افراد کے نام سمیت مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔

سپریم کورٹ میں مزید سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

واضح رہے کہ 21 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔