Get Alerts

میں نے درخواست سابق وزیر اعظم عمران خان کی حمایت میں دائر نہیں کی: سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ

میں نے درخواست سابق وزیر اعظم عمران خان کی حمایت میں دائر نہیں کی: سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ
پاکستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ میں زیرسماعت عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس کے خلاف درخواست دائر کرنے کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف ہمیشہ سے ہوں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ میں نے درخواست سابق وزیر اعظم عمران خان کی حمایت میں دائر کی۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا کہ مجھے ایک نیک نام صحافی نے ایک دوست کے ذریعے پیغام بھجوایا ہے کہ میڈیا میں میرے بارے میں اور جو سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے اس بارے میں کچھ چہ مگوئیاں اور خبریں گردش کررہی ہیں۔ اس نیک نام صحافی جس کی دل سے عزت کرتا ہوں،نے مشورہ دیا ہے کہ میں اس بارے میں کچھ کہوں۔

جواد ایس خواجہ  نے پاکستانی میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کتنا خود مختار اور آزاد ہے اس بارے میں میری رائے کچھ اچھی نہیں ہے۔میڈیا کتنا سہما ہوا ہو یا میڈیا نے خود اپنی آزادی پر کس قدر سمجھوتا کر لیا ہے وہ عوام کے سامنے ہے۔ اس حوالے سے اپنی کتاب سلاٹرڈ ود آوَٹ نائف میں ذکر کر چکا ہوں۔ اپنی اس رائے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے دھارے میں اس وقت بحیثیت قوم ہم مجموعی طور پر ایک نہایت اہم اور نازک موڑ پر ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آنے والی نسلوں کے لیے کچھ ضبط تحریر میں لے آوَں۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کا تعلق ہے اس بارے میں میرا موقف آج کا نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ حالات و واقعات کے زیراثر بنا ہے۔ 2015 میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن بنام وفاق پاکستان (پی ایل ڈی 2015 ، ایس سی 401)  میں، میں نے بطور جج سپریم کورٹ جو موقف اپنایا تھا وہ ہماری ملک کی اور عدلیہ کی تاریخ کا حصہ ہے۔ 2015 میں بھی میری یہی رائے تھی کہ عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانا غیر آئینی ہے کیونکہ ایسا فعل شہریوں کے آئینی حقوق سے متصادم ہے۔ اس لیے میڈیا جو تاثر دے رہے ہیں کہ میں نے فوجی عدالتوں کے خلاف آج کوئی نیا موَقف پیش کیا ہے جو کسی ذاتی یا خانگی مصلحت کے تحت ہے ایسے صحافی یا تو تاریخ سے ناواقف ہیں یا وہ عوام الناس کو جان بوجھ کر گمراہ کرہے ہیں۔

مجھے بتایا گیا ہے کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنی درخواست سابق وزیر اعظم عمران خان کی حمایت میں دائر کی ہے تو یہ بات غلط ہے۔ عمران خان کے وکیل حامد خان سے میری چھیالیس سال کی رفاقت ہے۔ وہ انتہائی معتبر قانون دان ہیں اور قابل تکریم ہیں۔نہ تو انہوں نے اپنی درخواست کے بارے میں مجھ سے بات کی اور نہ ہی میں نے اپنی درخواست کا ان سے ذکر کیا۔

عمران خان صاحب کو میں قریبا 60 سال سے جانتا ہوں لیکن پچھلے کم از کم 50 سال سے میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ سوائے اس ملاقات کے جو اج سے قریبا 15 سال قبل ایک شادی کی تقریب میں ہوئی۔

میری درخواست مفاد عامہ میں دائر کی گئی اور کسی اعتبار سے وہ حامد خان کی دائر درخواست سے مختلف بھی ہے۔میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میڈیا عوام کے حقوق کا امین ہے لہٰذا عوام کی امانت ان تک دیانتداری کے ساتھ پہنچائے۔

واضح رہے کہ 26 جون کو  سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے عام شہریوں کے ملٹری عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔

اس میں استدعا کی گئی کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے حوالے کیے گئے افراد کو کہاں رکھا گیا ہے۔ اس کا ڈیٹا طلب کیا جائے۔ ملٹری عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے بھیجے جانے والے ملزمان کو فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے سول اتھارٹیز کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ملٹری کورٹس کی تمام کارروائی روکنے اور کوئی بھی حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔ اس میں مؤقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں ہے، درخواست گزار کا اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔

اس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ درخواست گزار کا مقصد کسی سیاسی وابستگی کے بغیر عام شہریوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ درخواست گزار کا مقصد مجرمانہ سرگرمیوں کے مشتبہ افراد کو بری کرانا نہیں۔ درخواست گزار ملزمان کے کسی فعل کی حمایت نہیں کرتا، عام شہریوں کے خلاف کیس چلانے کا فورم کریمنل کورٹس ہیں۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ کورٹ مارشل کی کارروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جاسکتی ہے۔کورٹ مارشل کا مقصد افواج میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر وہ حاضر سروس ملازم ہوں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آئین پاکستان کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ اس کیس کے فیصلے کا فوری طور پر بنیادی حقوق پر براہِ راست اثر پڑے گا۔ حکومت اور فوج نے واضح کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ کوئی جرم سرزد ہونے کی صورت میں ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے۔

دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ کورٹ مارشل کی صورت میں آئین میں دیے گئے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔شفاف ٹرائل اسی صورت ممکن ہوگا جب مقدمے کی کھلی سماعت ہو اور ملزمان کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہو۔ کورٹ مارشل کی صورت میں ان اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دستیاب نہیں ہوگا۔

سابق چیف جسٹس کی جانب سے دائر درخواست میں وزارت قانون، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مختلف حلقوں کی جانب سے عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔

اس سلسلے میں پاکستان بار کونسل، سول سوسائٹی اور معروف قانون دان اعتزاز احسن سمیت دیگر نے مطالبہ کیا کہ 9 مئی کے توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات میں ملوث تمام کرداروں کا ٹرائل سول کورٹس میں ہونا چاہیے۔ کسی سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں نہیں ہونا چاہیے۔