وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ملک میں قائم سویلین سیٹ اپ اور مقتدر حلقے اس وقت ایک دوسرے کے خلاف صف آراء یا مزاحمتی کردار اپنائے نظر آتے ہیں ، جس کا تازہ ترین مظاہرہ بدھ کے روز پارلیمانی " آل پارٹیز کانفرنس " سے وزیراعظم کا درمیان ہی میں آٹھ کر چلے جانے سے ہوا ، ذرائع کے مطابق مقتدر حلقوں نے بڑے جتن کر کے حکومتی و اپوزیشن جماعتوں سمیت سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کی وڈیو لنک پر یہ کانفرنس منعقد کروائی تھی تاکہ ملک کو درپیش کرونا وائرس کے سنگین قومی بحران پر قومی یکجہتی، ہم آہنگی اور ملی یکسوئی عمل میں لائی جا سکے اور ایک متفقہ لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں جہاں ایک طرف سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (نون) کے صدر شہبازشریف کو پاکستان آنے والی آخری پرواز کے ٍذریعے لندن سے بلایا گیا تو دوسری طرف دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو یہ کہلوانے تک رام کرلیا گیا کہ " یہ میرا وزیراعظم ہے " مگر ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان اس اے پی سی کے حق میں ہی نہیں تھے ۔
بتایا جاتا ہے کہ جب وزیراعظم کو اس کا پتہ چلا کہ جو حقائق ملک کے وزیراعظم اور سی ایم پنجاب عثمان بزدار کو بھی نہیں بتائے گئے وہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ شئیر گئے ہیں تو وزیراعظم اس پر اپنا ردعمل دکھاتے ہوئے پارلیمانی APC چھوڑ کر چلے گئے ، اور یوں " ان " کی کوششوں سے وزیراعظم کی منشاء کے خلاف انعقاد پذیر ہونے والی یہ اے پی سی ناکامی سے دوچار ہوگئی ۔
دوسری طرف بدھ ہی کے روز جہاں پرائم منسٹر ہاؤس ملک بھر میں لاک ڈاؤن جاری رکھنے اور ٹرانسپورٹ کی بندش سمیت اسے مزید سخت کرنے کی مخالفت پر ڈٹا ہوا تھا وہیں چاروں صوبوں کے حکومتی نمائندے اسے جاری رکھنے کی" آن ایئر " حمایت کرتے نظر آئے۔ اس صورتحال میں حکمت عملی بارے وفاق کے کنفیوژن کی کیفیت لوگوں کے ذہنوں میں کئی اہم سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کل تک بے مثال انداز میں " ایک پیج " پر ہونے والوں کے درمیان دوریوں اور آج ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو جانے کی کہانی 2 ہفتے قبل اس وقت واضح ہونا شروع ہوگئی تھی جب وزیراعظم نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے وزیر داخلہ کو ہنگامی ہدایات جاری کیں کہ فاٹا کے 2 اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو افغان صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے کابل جانے دیا جائے حالانکہ ان کے نام ای سی ایل میں شامل تھے اور مقتدر حلقے ان دونوں ایم این ایز کو افغانستان جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
اور بتایا جاتا ہے کہ پھر 2 روز قبل دوسرے " فریق " نے بھی مقامی افسران کے ذریعے فیشن ڈیزائنر ماریہ بی کے شوہر کو فوری رہائی دلوا کر گھر بھجوا دیا جس کے خلاف سنگین کوتاہی کے ذریعے کرونا وائرس پھیلانے میں مددگار ہوسکنے کے جرم کا مقدمہ درج تھا۔